آئین گورنرکواعتماد کے ووٹ کی تاریخ مقررکرنیکا اختیار نہیں دے رہا،لاہور ہائیکورٹ
لاہور: آئین صرف گورنرکواعتماد کے ووٹ کہنےکااختیاردےرہاہے،آئین گورنرکواعتماد کے ووٹ کی تاریخ مقررکرنیکا اختیار نہیں دے رہا،لاہور ہائیکورٹ
گورنر پنجاب کی جانب سے لاہور ہائی کورٹ میں وزیراعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الہیٰ کو عہدے سے ہٹانے کیخلاف درخواست پر سماعت کے دوران پرویز الہیٰ کے وکیل کا کہنا تھا کہ گورنر پنجاب نے رات کی تاریکی میں نوٹی فکیشن جاری کر کے کہا کہ کل اعتماد کا ووٹ لیں۔ گورنر اس وقت اپنے اختیارات استعمال کرتا ہے، جب اس کو وزیراعلیٰ پر اعتماد نہ رہے۔
لاہور ہائی کورٹ میں گورنر پنجاب کے وزیراعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الہیٰ کو عہدے سے ہٹانے کیخلاف درخواست پر سماعت آج بروز بدھ 11 جنوری کو ہوئی۔ جسٹس عابد عزیز شیخ کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ نے دن گیارہ بجے چوہدری پرویز الہیٰ کی درخواست پر سماعت کا آغاز کیا۔لارجر بینچ میں جسٹس چوہدری محمد اقبال، جسٹس طارق سلیم شیخ ، جسٹس مزمل اختر شبیر اور جسٹس عاصم حفیظ بھی شامل ہیں۔
سماعت کے آغاز میں جسٹس لاہور ہائی کورٹ عابد عزیز نے پرویز الہیٰ کے وکیل سے استفسار کیا کہ معاملہ حل ہوا؟، جس پر وکیل نے عدالت کو بتایا کہ معاملہ حل نہیں ہوا۔
اس موقع پر جسٹس عابد نے گورنر پنجاب کے وکیل خالد اسحاق کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ گورنر پنجاب کے وکیل نے کیا آفر دی ہے؟۔ خالد اسحاق نے بتایا کہ ہم نے آفر دی تھی کہ دو سے تین دنوں میں اعتماد کا ووٹ لیں، مگر انہوں نے ہماری آفر نظر انداز کردی۔سماعت کے دوران عطا تارڑ، رانا مشہود، خلیل طاہر سندھو، پیر اشرف رسول، وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ بھی کمرہ عدالت میں موجود رہے۔بدھ کو ہونے والی سماعت میں چیف جسٹس عابد عزیز نے اہم ریمارکس دیئے۔ جسٹس عابد عزیز شیخ نے کہا کہ ہم سب کو سنیں گے یہ اسمبلی نہیں ہے۔ چاہتے ہیں کہ آپ صرف منظور وٹو کیس کا آخری پہرہ پڑھیں تاکہ ہم سمجھ سکیں کہ کیا مماثلت ہے۔آپ کے تمام دلائل کے نچوڑ میں دو چیزیں سمجھی ہیں۔۔ ایک آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ گورنر نے اعتماد کا ووٹ لینے کے لیےمناسب وقت نہیں دیا، دوسرا آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ گورنر نے جو نوٹیفکیشن جاری کیا وہ غیر قانونی ہے۔ موجودہ کیس میں ایسا کچھ نہیں ہوا مگر گورنر نے اعتماد کے ووٹ کے لیے کہہ دیا۔
سماعت میں وزیر اعلیٰ پنجاب کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے اپنے دلائل میں کہا کہ لڑائی دو ہمسایوں کے درمیان ہورہی ہے مگر سزا کسی اور کو دے گئی۔ جس پر جسٹس عابد نے کہا کہ اگر آپ کی مان لی جائے کہ گورنرتاریخ نہیں دے سکتا تو اس میں دوصورتیں ہیں، فرض کریں اگر گورنر اعتماد کے ووٹ کی تاریخ نہیں دیتا اور اسپیکر اجلاس 35 دن کے لیے ملتوی کردیتا ہے تو پھر گورنرکیا کرے گا، اگر اسمبلی سیشن چل رہا پھربھی اعتماد کےووٹ کےلیےعلیحدہ سےاجلاس بلوانےکی ضرورت نہیں، کیا جاری سیشن کو روک کر وزیراعلی اعتماد کا ووٹ لے سکتا ہے یا نہیں۔
جواباً علی ظفر نے کہا کہ اسپیکراسمبلی اجلاس بلوانے کا کہتا ہے، مگر یہاں اسپیکر نے وزیر اعلی کو اعتماد کے ووٹ کا نہیں کہا، اسپیکر نے رولنگ جاری کردی، گورنر نے اسپیکر کی رولنگ کو چیلنج نہیں کیا۔
اس موقع پر چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے کہا کہ جو اسمبلی رولز پڑھے اس کے مطابق گورنر اعتماد کا ووٹ لینے کی تاریخ مقرر کرسکتا ہے۔عدالت کے روبرو اپنے دلائل جاری رکھتے ہوئے بیرسٹر علی طفر کا مزید کہنا تھا کہ ووٹ کی تاریخ مقررکرنے کے حوالے سے آئین کے آرٹیکل کو دیکھنے کی ضرورت ہے۔
دوران سماعت عدالت نے پرویز الہیٰ کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آئین گورنر کو اعتماد کے ووٹ کی تاریخ مقرر کرنے کا اختیار نہیں دے رہا، آئین صرف گورنر کو اعتماد کے ووٹ کہنے کا اختیار دے رہا ہے ، دوسری جانب جو اسمبلی رولز آپ نے پڑھے ہیں اس کے مطابق گورنر کو اختیار ہے کہ اعتماد کے ووٹ کی تاریخ مقرر کرے۔
دلائل کے دوران چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ اور پرویز الہیٰ کے درمیان مکالموں کا تبادلہ ہوتا رہا۔ ایک موقع پر بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ آئین نے گورنرکو اختیارات دیئے ہیں مگر اس کا بھی طریقہ کار ہے، گورنر پنجاب اگر وزیر اعلیٰ پنجاب کے اعتماد پر مطمئن نہیں تھا، گورنر پنجاب اسمبلی اسپیکر کو اجلاس بلوانے کا کہتا ہے، اسپیکر اسمبلی گورنر کے نوٹیفکیشن کے بعد ممبران کو نوٹسز جاری کرتا ہے، مگر موجودہ کیس میں ایسا نہیں کیا گیا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ عدم اعتماد کی تحریک کے لیے تیار تھے، اپوزیشن نے اپنے نمبر شو کرنے تھے،اعتماد کے ووٹ میں وزیر اعلی نے اپنی اکثریت شو کرنا ہوتی ہے، گورنر پنجاب اعتماد کے ووٹ کے لیے دن مقرر نہیں کرسکتا۔
سماعت میں ایک موقع پر لارجر بینچ میں شامل جسٹس عاصم نے کہا کہ موجودہ کیس میں گورنر نے 19دسمبر کو اعتماد کا ووٹ لینے کا کہا ، اگر گورنر کہے کہ 10 دن میں اعتماد لیں تو پھر کیا ہوتا۔
علی ظفر کے مطابق 19دسمبر کو تحریک عدم اعتماد آئی، بیس منٹ بعد گورنر نے اپنا حکم جاری کردیا، ساری کہانی کا مقصد اسمبلی کی تحلیل روکنا تھا، 23 دسمبر کو عدم اعتماد کی تحریک واپس لے لی گئی، اعتماد کے ووٹ کے لیے پورا طریقہ کار موجود ہے۔ یہ ممکن نہیں ہے گورنر اچانک صبح اٹھ کر کہے کہ اعتماد کا ووٹ لیں۔ پانچ ماہ قبل وزیر اعلیٰ نے اسمبلی میں اپنی اکثریت دکھائی تھی۔ آئین میں اسمبلی توڑنے کا اختیار منتخب نمائندے یعنی وزیر اعلیٰ کو دیا گیا ہے۔ وزیراعلیٰ گورنر کو اسمبلی توڑنے کی ایڈوائز جاری کرے گا اور 48 گھنٹے میں اسمبلی تحلیل ہوجائے گی۔
علی ظفر نے یہ بھی کہا کہ گورنر اس وقت تک اعتماد کے ووٹ کا نہیں کہتا جب تک اسے وزیراعلیٰ پر اعتماد ہوتا ہے، گورنر اس وقت اپنے اختیارات استعمال کرتا ہے جب اس کو وزیر اعلیٰ پر اعتماد نہ رہے، مگر رات کی تاریکی میں نوٹیفکیشن جاری کر کے کہا گیا کہ کل اعتماد کا ووٹ لیں۔ کیس کی مزید سماعت 12 جنوری جمعرات تک ملتوی کردی گئی۔
چوہدری پرویزالہیٰ نے گورنر پنجاب کے ڈی نوٹیفائی کرنے کے اقدام کو ہائی کورٹ میں چیلنج کر رکھا ہے۔ عدالت نے گورنر پنجاب کے وزیراعلیٰ پرویز الہیٰ کو ڈی نوٹیفائی کرنے کے اقدام پر عملدرآمد روک رکھا ہے۔عدالت نے اٹارنی جنرل اور ایڈووکیٹ جنرل پاکستان کو معاونت کیلئے طلب کر رکھا ہے۔
بدھ کو ہونے والی سماعت میں چوہدری پرویزالہیٰ کی جانب سے بریسٹر علی ظفر پیش ہوں گے، جب کہ گورنر پنجاب کی جانب سے منصور اعوان ایڈووکیٹ سمیت دیگر وکلاء پیش ہوں گے۔
دائر درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ گورنر پنجاب نے اعتماد کا ووٹ لینے کيلئے وزیر اعلیٰ کو خط لکھا ہی نہیں۔