ایم کیو ایم پاکستان بلدیاتی الیکشن میں حصہ لے،بلاول بھٹو زرداری
چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری نے ایم کیو ایم پاکستان کو مشورہ دیا ہے کہ وہ بلدیاتی الیکشن میں حصہ لے۔ یہ بھی کہا کہ کراچی اور حیدرآباد کا میئر پی پی پی سے ہوگا۔
میڈیا سےگفتگو کرتے ہوئے چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے فیصلے سے کنفیوژن دور ہوگئی، کل کراچی اور حیدرآباد میں بلدیاتی الیکشن ہونے جارہے ہیں، بلدیاتی الیکشن سے ہی کراچی ترقی کرسکتا ہے۔ان کا کہا ہے کہ پیپلزپارٹی کے جیالے نہ کل کسی الیکشن سے ڈرے ہیں نہ آج، بلدیاتی الیکشن کیلئے پُرعزم ہیں، سندھ حکومت نے بلدیاتی الیکشن کیلئے پولیس کو بلوایا ہے، 15 جنوری کو الیکشن ہوں گے، سیکیورٹی مینج کریں گے۔
بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ کراچی اور حیدرآباد کیلئے ضروری ہے وفاق اور صوبہ ایک پیج پر ہو، امید کرتا ہوں کہ لوگ باہر نکل کر ووٹ کا حق استعمال کریں گے۔
اس سے قبل بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ کراچی کا میئر پیپلزپارٹی کا ہوگا، پہلی بار حیدرآباد کا میئر بھی پیپلزپارٹی سے ہوگا، ہماری توجہ بلدیاتی الیکشن پر ہے، عوام ووؔٹ کا حق استعمال کریں تاکہ شہر ترقی کرسکے۔
انہوں نے ایم کیو ایم پاکستان سے گزارش کی ہے کہ بلدیاتی الیکشن میں حصہ لے، ایم کیو ایم بطور سیاسی جماعت مایوس نہ ہو۔ چیئرمین پی پی پی کا کہنا ہے کہ شہر کی ترقی کیلئے صوبائی، وفاقی سطح پر ایک پیج پر ہوں گے، ہم صوبائی حکومت میں بھی ہیں چاہیں گے کہ مل کر شہر کی ترقی کیلئے کام کریں، مل کر بلدیاتی حکومت چلائیں گے تو صوبائی اور وفاقی حکومت سے بھی کام کریں گے۔
بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ سنا ہے ایک جماعت الیکشن جیت بھی جاتی ہے تو وہ پھر بھی استعفیٰ دے دیتی ہے، پی پی انتظار میں ہے کہ الیکشن ہو، صوبے میں سب سے زیادہ امیدوار پیپلزپارٹی کے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ 4 بار الیکشن ملتوی ہوا ہے، ڈی لیمیٹیشن کا مسئلہ ہے، الیکشن کا اعلان ہوجائے تو حلقہ بندیوں پر کام نہیں ہوسکتا، اتحادیوں کے مسائل حل کرنے کی ہر ممکن کوشش کی۔
سربراہ پیپلزپارٹی نے کہا کہ حلقہ بندیوں پر تمام سیاسی جماعتوں کے اختلافات ہوتے ہیں، جب حلقہ بندیاں ہوئی توسب سے زیادہ اعتراضات پی پی نے کئے، مگر ہمارے اعتراضات نہیں مانے گئے، پھر بھی ہم الیکشن کیلئے تیار ہیں، کوئی موقع نہیں کہ شیڈول کے بعد ڈی لیمیٹیشن پر کام ہو۔
بلاول بھٹو زرداری کا کہنا ہے کہ بلدیاتی الیکشن کا نظام کرونا سے پہلے ختم ہوچکا تھا، بلدیاتی نظام ہوتا تو ہم متاثرین کی مزید مدد کرسکتے تھے۔