پنجابی زبان نصاب میں کیوں نہیں پڑھاٸ جاتی؟

تحریر:عبدالرحمان(پنجابی قوم پرست دانشور و اسکالر)
میں کافی عرصہ اس الجھن کا شکار رہا کہ وطن عزیز میں سندھی، پشتو، بلوچی تو پڑھائی جاتی ہے لیکن جیسے ہی پنجابی پڑھانے اور پرائمری تک پنجابی میڈیم نصاب کے نفاذ کی بات کی جائے تو اس مطالبے کی مخالفت کی جاتی ہے۔ریاستی دانشور اس کی مخالفت میں پیش پیش نظر آتے ہیں۔ مجھے اس بات نے کافی عرصے تک الجھائے رکھا اور آخر کار مجھے یہ بات سوچنے پر مجبور کر دیا کہ اس رویے کی وجوہات کیا ہیں؟ کیوں پاکستان کی سب سے بڑی آبادی کی زبان کو پچھلے پچھتر سال سے پنجاب میں پراٸمری نصاب کی زبان نہیں بنایا گیا اور سکول، کالج اور یونیورسٹی کی سطح تک پڑھایا نہیں گیا؟ پنجابی زبان اپنی ثقافت، ادب، تاریخ، علاقے اور سماجی اعتبار سے ایک مکمل زبان ہے اور زبان کے اصولوں کے اعتبار سے بہت وسعت کی حامل ہے۔ پنجاب کی ثقافت اپنے اندر مذہبی رواداری سموئے ہوئے ہے پنجابی بولنے والوں میں بڑی تعداد مسلمانوں سکھوں ہندوؤں اور مسیحیوں کی ہے اور ان تمام مذاہب کے ماننے والوں کی تعداد کروڑں میں ہے۔ یہ افراد وہ گلدستہ ہیں جو متنوع سماج تخلیق کرتے ہیں اور پنجابی ہزاروں سال سے سیکولر اور صوفیانہ انداز سے زندگی گزارتے آئے ہیں۔ یہاں مذہبی فسادات کی تعداد نہ ہونے کے برابر رہی ہے۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ ملک کی سب سے بڑی آبادی کو اس کی زبان، ثقافت، تاریخ سے دور رکھنے میں کس طبقے یا گروہ کے مفادات وابستہ ہیں؟ تو جواب بڑا سادہ ہے اگر پنجابی کو رائج کیا جاتا ہے تو پھر پنجابی ادب، پنجابی تاریخ اور پنجابی ہیرو پڑھائیں جائیں گے جن کو پڑھ کر بہت سارےوہ کردار جن کو یہاں معتبر بنا کے پیش کیا ہے ان کی اصلیت لوگوں کے سامنے آ جائے گی اور ول ڈیورانٹ کے بقول دادا کی لوٹ پوتے کی مقدس جائیداد بن جاتی ہےوالا مقولہ سچ ثابت ہو جائے گا۔ ۔ یہاں وارث شاہؒ کے نام پر یونیورسٹی بننا بھی قابل قبول نہیں تو بابا فریدؒ، بابا گرو نانک جی، بابا بلھے شاہؒ، سلطان باہوؒ، میاں محمد بخشؒ، شاہ حسینؒ، میاں میرؒ جیسے صوفی کیسے پڑھائے جا سکتے ہیں؟ دلا بھٹی، بھگت سنگھ، سر گنگا رام، ملنگی، نظام لوہار، مراد فتیانہ، رائے احمد خان کھرل جیسے دھرتی زاد بھی نہیں پڑھائے جا سکتے کیونکہ ان کو پڑھانے سے بھی بہت سارے کردار بے نقاب ہوتے ہیں۔ اچاریہ پنگالا جس نے ریاضی میں صفر اور اعشاری نظام متعارف کروایا وہ بھی پنجابی تاریخ میں پڑھانا پڑے گا پاننی جس نے سب سے پہلے زبان کے سائنسی اصول متعارف کروائے اور زبان کی گرائمر بنائی وہ بھی پنجابی تاریخ میں پڑھانا پڑے گا جن کو پڑھ کر کافی لوگوں کو بدہضمی ہو سکتی ہے اور ڈاکٹر عبدالسلام اور ڈاکٹر ہر گوبند کھرانہ دونوں پنجابی تھے جن کو سائنسی تحقیق پر نوبل پرائز سے نوازیا گیا وہ پڑھانے پڑ جائیں گے مطلب یہ ہے کہ جو کچھ اب تک پڑھایا گیا اس کی نفی ہو جائے گی اس لیے ریاستی دانشور اس بات پر متفق ہیں پنجابی لاگو نہیں ہونے دینی ۔ پنجابی قوم پرست تنظیمیں یہ نقطہ نہیں سمجھ پا رہیں کہ پنجاب کی مصنوعی تقسیم سیاسی عمل تھا اور اس کے نتیجے میں پنجاب پر مسلط اشرافیہ سے اپنے حقوق کا حصول بھی سیاسی عمل سے ہی ممکن ہو گا. سیاسی جدوجہد کے لیے پنجابی قوم پرست سیاسی جماعت کی ضرورت ہوتی ہے جو ابھی تک یہ تنظیمیں نہیں بنا پائیں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں