بلدیہ فیکٹری جلانے کا فیصلہ ایم کیو ایم قیادت کی منظوری کے بغیر ممکن نہیں، سندھ ہائیکورٹ
گمراہ کن ایف آئی آر کے ذریعے اصل مجرموں کو تحفظ فراہم کیا گیا، عدالت
علی انٹرپرائز بلدیہ ٹاؤن فیکٹری میں11 ستمبر 2012ء کو آ تشزدگی سے 260 افراد جل کر جاں بحق ہوگئے تھے۔
کراچی: سندھ ہائیکورٹ نے سانحہ بلدیہ فیکٹری کیس کا تحریری فیصلہ جاری کرتے ہوئے رحمان عرف بھولا اور زبیر عرف چریا کی سزائے موت کیخلاف اپیلیں مسترد کردیں.
فیصلے میں کہا گیا کہ ایسا لگتا نہیں کہ فیکٹری کو جلانے کا اتنا سنگین فیصلہ ایم کیو ایم کی اعلیٰ ترین قیادت کی منظوری کے بغیر کیا گیا ہو.عدالت عالیہ نے مقدمے میں اشتہاری حماد صدیقی کو واپس لانے سے متعلق رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیدیا۔جسٹس کے کے آغا کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے 46 صفحات پر مشتمل سانحہ بلدیہ فیکٹری کیس میں ملزمان کی سزاؤں اور بری ہونے کیخلاف حکومتی اپیلوں پر تحریری فیصلہ جاری کیا۔تحریری فیصلے کے مطابق عدالت نے عبد الرحمان عرف بھولا اور زبیر عرف چریا کی سزا کیخلاف اپیلیں مسترد کرتے ہوئے انسداد دہشتگردی کی خصوصی عدالت کی جانب سے سزائے موت کا فیصلہ برقرار رکھنے کا حکم دیا ہے۔عدالت نے حکومت کی ایم کیو ایم کے رہنما رؤف صدیقی سمیت 4 ملزمان کی بریت کیخلاف اپیلیں مسترد کردیں، جبکہ عمر قید کے ملزمان ارشد محمود، محمد فضل، شاہ رخ اور علی محمد کی اپیلیں منظور کرتے ہوئے بری کردیا۔تحریری فیصلہ میں عدالت عالیہ نے کہا کہ کیس میں انتہائی غیر معیاری اور ناقص تفتیش کا انکشاف ہوا ہے۔ ایک گمراہ کن ایف آئی آر کے ذریعے اصل مجرموں کو تحفظ فراہم کیا گیا۔ گواہان خوف کی وجہ سے سامنے نہیں آئے اور پولیس نے بھی بھتہ وصولی کو سامنے لانے سے گریز کیا۔ یہاں تک کہ تحقیقاتی کمیشن نے بھی آگ لگنے کی وجہ معلوم کرنے کیلئے ماہرین سے کیمیکل تجزیہ کرانے سے گریز کیا۔تحریری فیصلے میں کہا گیا کہ بڑی تعداد میں انسانوں کی ہلاکت کا سوگ تو منایا گیا مگر آئندہ ایسے واقعات کو روکنے کیلئے اقدامات نہیں کیئے گئے۔ مختلف ادارے اور تنظیمیں ہلاک شدگان کے ورثا کو معاوضہ ادا کرنے کا کریڈٹ لینے کے مقابلے میں مصروف تھیں۔سندھ ہائیکورٹ کے سامنے اتفاق سے واقعہ کے تین سال بعد رضوان قریشی کی جے آئی ٹی سامنے آئی۔ اگر یہ رپورٹ سامنے نہ آتی تو اصل مجرم اس ہولناک اور لرزہ خیز جرم کے بعد فرار ہو چکے ہوتے۔تحریری فیصلے کے مطابق پولیس نے حقائق تک پہنچنے کیلئے درست تفتیش تک نہیں کی۔ پولیس نے فیکٹری مالکان اور متعلقہ محکموں پر حفاظتی اقدامات نہ ہونے کا الزام لگا کر اپنی ذمہ داری سے گریز کیا۔عدالت عالیہ نے کراچی کے تمام فیکٹری مالکان کو آگے لگنے سے متعلق ایس او پیز پر مکمل عمل درآمد کرنے اور سندھ حکومت کو تمام فیکٹریوں کا معائنہ کرانے کا حکم دے دیا۔عدالت نے سندھ حکومت کو 6 ہفتے میں تمام فیکٹریوں میں حفاظتی اقدامات سے متعلق معائنہ کرکے رپورٹ تیار کرنے کا حکم دیدیا۔تحریری فیصلے میں عدالت عالیہ نے کہا کہ ایسا لگتا نہیں کہ فیکٹری کو جلانے کا اتنا سنگین فیصلہ ایم کیو ایم کی اعلیٰ ترین قیادت کی منظوری کے بغیر کیا گیا ہو۔ پولیس نے تفتیشی میں اس اہم زاویئے کو نظر انداز کیا۔ کے ٹی سی ارکان سے ایم کیو ایم کے مرکز نائن زیرو پر ملاقاتیں ہوتی رہیں۔ حماد صدیقی ایک اشتہاری مجرم اور 10 سال سے زائد عرصہ سے بیرون ملک فرار ہے مگر اسے واپس نہیں لایا گیا۔عدالت نے حماد صدیقی کو وطن واپس لانے سے متعلق اقدامات کی رپورٹ طلب کرلی۔ عدالت نے سیکریٹری داخلہ، آئی جی سندھ اور سیکریٹری محکمہ داخلہ سندھ کو رپورٹ کے ساتھ پیش ہونے کا حکم دیدیا۔عدالت نے فیصلے میں کہا کہ حکام خود پیش ہوں یا سینئر افسران کے ذریعے 18 ستمبر کو رپورٹ پیش کی جائے۔ 29 اگست کو فریقین کے دلائل مکمل ہونے پر عدالت عالیہ نے فیصلہ محفوظ کیا تھا۔پراسیکیوشن کے مطابق انسداد دہشتگردی کی خصوصی عدالت نے 2020 میں 2 ملزمان کو سزا موت اور 4 کو عمر قید کی سزا سنائی تھی۔انسداد دہشتگردی کی خصوصی عدالت نمبر 7 کے فیصلے کیخلاف ملزمان نے اپیلیں دائر کی تھیں۔ جبکہ حکومت نے رؤف صدیقی سمیت 4 ملزمان کی بریت کو چیلنج کیا تھا۔ عدالت نے عبد الرحمان عرف بھولا اور زبیر عرف چریا کو سزائے موت سنائی تھی، جبکہ فیکڑی ملازمین ملزم شاہ رخ، فضل، ارشد محمود اور علی محمد کو عمر قید کی سزا سنائی کا حکم دیا تھا۔11 ستمبر 2012 کو علی انٹرپرائز بلدیہ ٹاؤن فیکٹری میں آتشزدگی سے 260 افراد جل کر جاں بحق ہوگئے تھے۔