پی ٹی آئی اپنے رویہ پر غورکرے؟

تحریر:نعیم روحانی
میرےدوست اوربھائی طاہرمحمود نے اپنے حالیہ کالم لکھا کہ 8 ستمبرمیں حکمران اتحادنے ڈبل چال چلی ہے اوروہ اس چال میں خودہی پھنس گئے اوراب وہ بیک فٹ پر ہے،لیکن میں ذاتی طورپر اس سے اختلاف کرتاکیونکہ میں میں یہ سمجھتا ہوں کہ حکومت تو اس طرح کا کوئی بھی ایڈونچر برداشت نہیں کرسکتی کیونکہ اسوقت ملکی امن و امان اور معاشی صورتحال مشکلات کا شکار ہے لہٰڈا یہ مفروضہ درست نہ ہے جبکہ پارلیمنٹرین کی جو گرفتاریاں ہوئیں اس پر اسپیکر قومی اسمبلی، حکومت اور اس کی اتحادیوں نے اسکی حمایت نہیں کی. ان کی مکمل تحریر آپ کی نذر ہے (پردے کے پیچھے کیا چل رہا ہے ؟ ؟حاصل کلام / 12 ستمبر 2024)
پی ٹی آئی کے سنگجانی جلسے پر این او سی کے باوجود سختی اور اس کے بعد پارلیمنٹ ہاؤس کے احاطے سے منتخب نمائندوں کی گرفتاری کا معاملہ بظاہر حکومت کے گلے پڑتا نظر آرہا ہے کیونکہ میڈیا ، سول سوسائٹی اور سیاسی جماعتوں کی ایک غالب اکثریت نے اس اقدام کی مذمت کی ہے جس کی وجہ سے حکومت کو نا چاہتے ہوئے بھی اس عمل سے پیچھے ہٹنا پڑ رہا ہے ۔عمران خان کہتے ہیں کہ 22 اگست کا جلسہ انہوں نے اسٹیبلشمنٹ کے کہنے پر ملتوی کیا تھا اور اسٹیبلشمنٹ نے ان کو یقین دہانی کروائی تھی کہ 8 ستمبر کے جلسے کے لیے این او سی جاری کیا جائے گا تاہم این او سی کے باوجود حکومت کی جانب سے جلسے کو روکنے یا شرکاء کو محدود کرنے کے لیے سخت ترین اقدامات اٹھائے گئے اس کے بعد جلسے کی شرائط کی خلاف ورزی کے نام پر پارلیمنٹ کے احاطے سے جس طرح منتخب عوامی نمائندوں کو گھسیٹ کر گرفتار کیا گیا وہ نہ چاہتے ہوئے بھی حکومت کے لیے سبکی کا باعث بن رہا ہے۔اس سبکی سے بچنے کے لیے ایک طرف اسپیکر قومی اسمبلی نے آئی جی اسلام اباد اور اعلی پولیس حکام کو اپنے چیمبر میں طلب کر رکھا ہے تاکہ ان سے وضاحت لے سکیں کہ انہوں نے کس کی ایماء پر اور کیوں پارلیمنٹ کے احاطے سے ممبران کو گرفتار کیا، دبے لفظوں میں اور کہیں کھلے لفظوں میں پیپلز پارٹی اور دیگر جماعتوں کے ارکان بھی اس اقدام کی مخالفت کرتے نظر آرہے ہیں جبکہ وزیراعظم شہباز شریف بھی اس اقدام کو ناپسندیدہ قرار دینے پر مجبور ہوئے ہیں سوال یہ ہے کہ جب حکومت اس اقدام کو پسندیدہ قرار نہیں دے رہی تو پھر وزارت داخلہ کے ماتحت کام کرنے والے اداروں نے کس کے کہنے پر یہ گرفتاریاں کی ہیں ؟ایسا لگتا ہے کہ حکومت عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان درپردہ بات چیت سے پریشان ہے اور مختلف محاذوں پر ایسے اقدامات کرنا چاہتی ہے جس سے پی ٹی ائی اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان دراڑیں پڑ سکیں۔ وزیر داخلہ محسن نقوی چونکہ براہ راست اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے اس حکومت کو تحفے میں ملے ہوئے ہیں لہذا پارلیمنٹ کے احاطے سے ممبران کی گرفتاریاں انہی کی وزارت کے ماتحت اداروں سے اس طرح سے کروائی گئی ہیں کہ یہ حکومت سے زیادہ اسٹیبلشمنٹ کی کارروائی لگے ، اسکا ایک ثبوت وزیر اعظم ، اسپیکر قومی اسمبلی اور پیپلز پارٹی کے ارکان کی جانب سے اس اقدام کو ناپسندیدہ قرار دینا بھی ہے ۔ ایسا لگتا ہے کہ ایک طرف ایسے اقدامات کر کے اور دوسری جانب مذمت مذمت کا کھیل کھیل کر حکومت یہ کھیل اسٹیبلشمنٹ کے کھاتے میں ڈالنا چاہتی ہے تاکہ پی ٹی آئی کے ساتھ درپردہ اسکی بات چیت کو سپوتاژ کیا جاسکے ۔دیکھا جائے تو حکومت اپنی اس چال میں کامیاب ہوگئی ہے کیونکہ عمران خان نے بھی جلسے پر سختیوں اور اس کے بعد اپنے رہنماؤں کی گرفتاریوں پر سخت نوٹس لیا ہے اور اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ بات چیت کے دروازے کو بند کرنے کا اعلان کردیا ہے .اس سے ایک بات تو طے ہو گئی کہ اسٹیبلشمنٹ اور پی ٹی ائی کے درمیان بات چیت کا سلسلہ چل رہا تھا اور اگر دیکھا جائے تو حکومت نے ایک کامیاب چال چلی ہے چونکہ عمران خان مذاکرات سے پیچھے ہٹ گئے ہیں اور دوسری طرف اگر اسٹیبلشمنٹ نے عمران خان سے اگر کچھ وعدے وعید کر رکھے تھے تو اسے بھی شرمندگی کا سامنا کرنا پڑ گیا ہوگا ان حالات میں پی ٹی آئی کو اپنا مقدمہ نہایت حکمت اور مصلحت کے تحت اگے بڑھانا ہوگا۔ جوش کے بجائے ہوش سےکام لینا ہوگا اگر اسٹیبلشمنٹ سنگجانی جلسے پر سختیوں اور اس کے بعد گرفتاریوں میں براہ راست ملوث نہیں اور حکومت نے صرف ایک چال کے طور پر یہ کھیل کھیلا ہے تو اسٹیبلشمنٹ اور پی ٹی آئی دونوں کو اس چال سے پردہ اٹھانا چاہے ناکہ حکومتی چال کا حصہ بن کر ایک دوسرے کیخلاف نئے محاذ کھول لیں۔
محترم طاہر نے لکھا کہ دیکھا جائے تو حکومت اپنی اس چال میں کامیاب ہوگئی ہے کیونکہ عمران خان نے بھی جلسے پر سختیوں اور اس کے بعد اپنے رہنماؤں کی گرفتاریوں پر سخت نوٹس لیا ہے اور اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ بات چیت کے دروازے کو بند کرنے کا اعلان کردیا ہے اس سے ایک بات تو طے ہو گئی کہ اسٹیبلشمنٹ اور پی ٹی ائی کے درمیان بات چیت کا سلسلہ چل رہا تھا اور اگر دیکھا جائے تو حکومت نے ایک کامیاب چال چلی ہے چونکہ عمران خان مذاکرات سے پیچھے ہٹ گئے ہیں اور دوسری طرف اگراسٹیبلشمنٹ نےعمران خان سے اگر کچھ وعدے وعید کر رکھے تھے تو اسے بھی شرمندگی کا سامنا کرنا پڑ گیا ہوگا ان حالات میں پی ٹی آئی کو اپنا مقدمہ نہایت حکمت اور مصلحت کے تحت آگے بڑھانا ہوگا۔ جوش کے بجائے ہوش سےکام لینا ہوگا اگر اسٹیبلشمنٹ سنگجانی جلسے پر سختیوں اور اس کے بعد گرفتاریوں میں براہ راست ملوث نہیں اور حکومت نے صرف ایک چال کے طور پر یہ کھیل کھیلا ہے.بھائی نے تو پی ٹی آئی کو مشورہ بھی دےدیا کہ جوش کے بجائے ہوش سےکام لینا ہوگا .اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات کے حوالے سے عمران خان کے یو ٹرنز کے بارے میں تو ہرکوئی جا نتاہےاس لئےانکی کسی بات پر یقین کرنا میری سمجھ سے بالاترہے کیونکہ وہ روزانہ اپنا مؤقف بدل کرلیتے ہیں ،کرکٹ علاوہ وہ جھوٹوں کے بھی کپتان ہیں.

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں