برطانیہ میں کوئلے سے چلنے والا آخری پلانٹ بھی بند کیا جارہاہے
جی سیون ممالک میں برطانیہ وہ پہلا ملک ہے جہاں کوئلے سے چلنے والے بجلی گھر مکمل طور پر بند ہو رہے ہیں-
برطانیہ کے ایسٹ مڈلینڈز ایئرپورٹ تک ٹرین سروس فراہم کرنے والے ریلوے اسٹیشن کے قریب واقع ‘رٹکلف آن شور’ نامی کول پاور پلانٹ کے دیوہیکل کولنگ ٹاورز ٹریک سے کچھ ہی فاصلے پر ہیں۔ لیکن اس مہینے کے اختتام پر وسطی انگلینڈ میں واقع یہ سائٹ ہمیشہ کے لیے بند ہو رہی ہے۔ یہ آخری کول پاور پلانٹ ہے جسے اب برطانیہ میں بند کیا جا رہا ہے۔
جی سیون ممالک میں برطانیہ وہ پہلا ملک ہے جہاں کوئلے سے چلنے والے بجلی گھر مکمل طور پر بند ہو رہے ہیں۔دنیا کے مختلف ملکوں میں آلودگی پھیلانے کا سبب سمجھے جانے والے کول پاور پلانٹس کو بتدریج بند کیا جا رہا ہے۔
‘رٹکلف آن شور’ نامی یہ کول پاور پلانٹ تقریباً 60 برسوں سے ایسٹ مڈ لینڈز کے خطوں میں توانائی کی ضروریات پوری کرتا رہا ہے۔ اس نام سے یہاں ایک چھوٹا قصبہ بھی ہے جب کہ یہ ایم ون موٹروے پر ڈربی اور ناٹنگھم کو تقسیم کرنے کی نشانی بھی ہے۔کوئلے نے برطانیہ کی معیشت میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اٹھارہویں اور انیسویں صدی میں یہ صنعتی انقلاب کی بنیاد رہا ہے۔ اس نے نہ صرف برطانیہ کو دنیا میں ایک بڑی معاشی طاقت بنایا۔ لیکن لندن میں اسموگ کی وجہ بھی ان کوئلے کے کارخانوں کو قرار دیا جاتا رہا ہے۔
حتیٰ کے 80 کی دہائی میں کوئلے سے چلنے والے بجلی گھر برطانیہ کی توانائی کی ضروریات کا 70 فی صد پورا کرتے تھے۔ تاہم 90 کی دہائی میں اس میں بتدریج کمی دیکھنے میں آئی۔
لیکن گزشتہ ایک دہائی کے دوران کوئلے سے چلنے والے بجلی گھروں کی تعداد میں تیزی سے کمی آئی ہے۔ 2013 میں کوئلے سے چلنے والے بجلی گھر برطانیہ میں توانائی کی ضروریات کا 38 فی صد پورا کرتے تھے۔ 2018 میں یہ کم ہو کر پانچ فی صد جب کہ گزشتہ برس یہ صرف ایک فی صد رہ گئے تھے۔
سن 2015ء میں برطانوی حکومت نے یہ اعلان کیا تھا کہ 2025ء تک کاربن اخراج کا باعث بننے والے تمام کول پاور پلانٹس بند کردیے جائیں گے۔انرجی اینڈ کلائمیٹ انٹیلی جینس یونٹ تھنک ٹینک میں توانائی کے سربراہ جیس رالسٹن کہتے ہیں کہ 2030ء تک کلین انرجی کا ہدف بہت بڑا تھا۔ لیکن اس سے یہ بڑا مضبوط پیغام گیا ہے کہ برطانیہ موسمیاتی تبدیلیوں کو بہت اہمیت دیتا ہے۔برطانیہ کے نیشنل گرڈ الیکٹری سٹی آپریٹر (ای ایس او) کے مطابق برطانیہ میں بجلی کی ضروریات کا ایک تہائی قدرتی گیس، ایک چوتھائی ہوا جب کہ 13 فی صد بجلی نیوکلیئر پاور سے پیدا ہوتی ہے۔رالسٹن کہتے ہیں کہ معاشی پالیسیوں اور ریگولیشنز کے باعث برطانیہ اتنی تیزی کے ساتھ کول پلانٹس ختم کرنے کے قابل ہوا۔ان کا کہنا تھا کہ اتنے بڑے پاور پلانٹس سے سلفر ڈائی آکسائیڈ، اور نائٹرس آکسائیڈز کا اخراج روکنے کے لیے ان پر سخت شرائط عائد کی گئیں۔ یہی وجہ تھی کہ کوئلے کا بجلی گھر لگانا سرمایہ کار کے لیے کوئی اچھا سودا نہیں رہا۔اوپر ترقی یافتہ مک کا حال ہے۔ جو کبھی ہمارے وطن اور اجداد کے اقا بھی رہے ہیں اور شاید اب بھی ہیں۔ لیکن اس کے باوجود ہم ان کی ان کے اس طرح کے کاموں سے کچھ نہیں سیکھتے کیونکہ غلامی ہمارے حکمرانوں کی نس نس میں بھری ہوئی ہے۔برطانیہ نے تو اٹھارویں اور انیسویں صدی میں کوئلہ سے چلنے والے بجلی گھر لگائے جو کہ بڑے پیمانے الودگی کا سبب بنے۔ مگر انھوں نے اپنی پوزیشن کو تبدیل کیا اور کوئلہ سے چلنے والے پلانٹ بتدریج ختم کردئے۔
جبکہ ہمارے حکمرانوں نے یہ سب جانتے ہوئے بھی اکیسویں صدی میں کوئلے کے پلانٹ لگانا شروع کئےہیں۔ شہباز شریف نے ساہیوال میں کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کا پلانٹ لگایا جو نہ صرف یہ کہ علاقے میں آلودگی بڑھانے کا سبب ہے بلکہ یہ کراچی سے لے کر ساہیوال تک الودگی بڑھانے کا سبب ہے۔باوجود اس کے سندھ میں تھر کے علاقے میں بہترین کوئلہ نکل رہا ہے مگر ساہیوال پلانٹ کے لئے کوئلہ بیرون ملک سے امپورٹ کیا جاتا ہے۔ کوئلے کے زرات کراچی پورٹ سے لے کر ریلوے اسٹیشن تک اور پھر جن شہروں سے یہ ٹرین گزرتی ہے ہر جگہ کوئلے اور کاربن کے زرات کی الودگی پھیلاتے جاتے ہیں۔اور اس کی درآمد کے پیچھے سارا کمیشن کا چکر ہے۔جب دنیا کوئلے کے پلانٹس کو ترک کررہی ہے تو ہم اپنے یہاں یہ اٹھارویں صدی کی ٹیکنالوجی لگا رہے ہیں۔ہمارے حکمران اتنی سمجھ بوجھ سے بھی محروم ہیں ہیں کہ دنیا کہ ترقی یافتہ ممالک کی تجربے سے ہی کچھ سیکھ لیں۔ مگر انھیں تو اپنی کک بیکس اور۔ کمیشن کی فکر ہے۔
(بشکریہ :مجیدقریشی)