ملک میں عدم استحکام پیدا نہ کریں
تحریر : نعیم روحانی
پاکستان کی تاریخ میں ستمبر کا مہینہ بڑی اہمیت رکھتا ہے ، ستمبر 1965میں بھارتی افواج نے پاکستان پرحملہ کر کے قبضہ کر نے کی ناپاک کوشش کی لیکن پاک فوج نے بھرپور دفاع کر کے نہ صرف بھارتی فوج کے عزائم کو خاک میں ملا دیا بلکہ اسے کئی محاذوں پر بھاری جانی ، مالی نقصان بھی اٹھانا پڑا جبکہ پاک فضائیہ بھی اس موقع پر پیچھے نہ رہی جہاں ہماری بری اوربحری افواج نے دشمن کو پے درپے شکست دیں وہیں پر پاک بحریہ نے اپنی مہارت ، بہادری اور شجاعت کے جوہر دکھائے اور دشمن کو دندان شکن جواب دیا ، ماہ ستمبر میں ہی قائداعظم محمد علی جناح ؒبانی پاکستان وفات کا دن بھی ستمبر کی 11 تاریخ وہ ہم ہمیشہ کیلئے جدا ہوگئے، پاکستان کے قیام کو 77 سال ہو گئے ہیں لیکن آج تک ہم ان فرمودات اور جس مقصد کے لئے یہ ملک بنایا گیا تھا اس پر عمل درآمد نہیں کر سکے اور قائدؒ کے خوابوں کی تعمیر تا حال ادھوری ہے، ہم ہر سال 11ستمبر اور25دسمبر کو قائداعظمؒ کا یوم وفات اور یوم پیدائش پرتقریبات منعقد کرتے ہیں اور وعدہ کرتے ہیں ہم ان کے قول یا فرمودات ایمان ، اتحاد اورتنظیم پر عمل کریں گے لیکن ہم نے کبھی یہ وعدہ وفا نہیں کیا ۔ اس سال یعنی 8ستمبر 2024 کو پاکستان تحریک انصاف کے جلسہ کی ہرطرف دھوم تھی پاکستان میں ایک عجیب کشمکش کی صورتحال تھی کہ جلسہ ہوگا یا نہیں ،عوام پراضطراب کی کیفیت طاری تھی کہ 8ستمبر کو کیا ہوگا ؟ کیونکہ اس موقع پر اسلام آباد جو کہ پاکستان کا دارالخلافہ ہے یہاں آپ کو معلوم ہے دنیا بھر کے سفارتخانے اور دیگر عالمی اداروں کے دفاتر بھی موجود ہیں تو آپ سوچیں کہ جب اسلام آباد کومکمل طور پر چاروں اطراف سے سیل کر دیا جائے اور لوگوں کی آمدورفت میں مشکلات ہوں تو بین الاقوامی سطح پرہم دنیا کو کیا پیغام دے رہیں؟ جب اس طرح کےحالات ہوں گے تو ہمارے ملک میں کون ہے جو کہ انوسٹمنٹ کرے گا جبکہ ہماری معاشی صورتحال کو ئی زیادہ بہتر بھی نہیں ہے ۔ ہم آئی ایم ایف سے قرضوں کے حصول کے لیے دنیا بھر میں خاص طورپر اپنے دوست ممالک کے سامنے ناک رگڑ رہے ہیں کہ ہمارے قرضے ری شیڈول کر دیئے جائیں لیکن اس لئے وہ اپنی شرائط ہم سے منوانا چاہتے ہیں جو کہ ہمیں قبول نہیں ایسی صورتحال میں جلسے جلوس کرنا وطن عزیز کو ہم کس نہج پرلےجانا چاہتے ہیں ،تاجروں ، طلباء تنظیموں ، سرکاری ملازمین ، مزدوروں ، کسانوں و دیگر سیاسی و مذہبی جماعتوں نے کبھی یہ سوچا ہے کہ ہڑتالوں اور احتجاج کرنے کا یہ وقت نہیں حکمران اتحادی جماعتیں اس وقت سرتوڑ کوششیں کررہی ہیں کہ وطن عزیز کو مشکل معاشی حالات اور مہنگائی سے عوام کو کس طرح چھٹکارا دلایا جائے کسی کو اس بارے کچھ خیال نہیں کہ ہم کسی طرح اس میں اپنا حصہ ڈال سکتے ہیں اورحکمرانوں کے لئے آسانی پیدا کر سکتے ہیں. پی ٹی آئی نے 5 جلسے ملتوی کرنےکے بعد بالآخر اپنی ضد اور انا کو تسکین پہنچانے کے لئے جلسہ کرلیا. حکومت وقت اور انتظامیہ نے 41 شرائط کے ساتھ پاکستان تحریک انصاف کو جلسہ کرنے مشروط اجازت دے دی انتظامیہ نے تو حفاظتی انتظامات کرنا ہوئے ہیں کیونکہ جب وفاقی دارالحکومت میں جلسہ ہو تو اس پرانتظامیہ کی ذمہ داری مزید بڑھ جاتی ہے یہ غیر ملکی سفیروں اور سفارت خانوں اور اس کے عملہ کی حفاظت جبکہ حکومت پاکستان اہم اداروں کی عمارتیں سپریم کورٹ ، پارلیمنٹ ہائوس ، صدر و وزیراعظم ہائوس پاک سیکرٹر یٹ و دیگر سرکاری محکموں کے دفاتر موجود ہوں تو پھر اس کے گرد حفاظتی حصاربنانابھی ناگزیرہو جاتا جس سےعوام کی آمدورفت میں رکاٹیں حائل ہوتی ہیں ۔ بہرحال ان باتوں کےباوجود انتظامیہ کی مجبوری ہے کہ وہ آقدامات اٹھائے بہر کیف پی ٹی آئی نے اسلام آباد میں جلسہ کیا جبکہ جلسہ کی کامیابی اور ناکامی پرتجزیہ کاروں کی مختلف آراء ہے لیکن جلسہ کے بعد اثرات سے ہم محفوظ نہیں رہ سکے کیونکہ پی ٹی آئی نے نہ مخصوص راستوں کا پاس رکھا اور نہ ہی وقت کا خیال رکھا جبکہ انتظامیہ نے انہیں باربار وارننگ دی کہ جلسہ 7بجے شام ہر حال میں ختم کرنا ہے لیکن جلسہ وقت مقررہ پر ختم نہ کیا جاسکا جس وجہ سے انتظامیہ حرکت میں آئی اور پی ٹی آئی کارکنوں اورانتظامیہ کے درمیان تصادم ہو گیا ۔ کارکنوں نے پولیس پر پتھراؤ کردیا جس کے جواب میں پولیس نے آنسو گیس کے گولے برسائے اور کارکنوں کو گرفتار کرنا شروع کردیا اس دوران پولیس اہلکار زخمی ہوگئے اورساری رات پکڑ دھکڑ کا یہ سلسلہ چلتا رہا ۔ اسلام آباد انتظامیہ نے پی پی آئی رہنمائوں کے خلاف مقدمات درج کئے اور11ستمبر کواسمبلی کے اجلاس کے بعد پی ٹی آئی کے ایم این ایز اورچیئرمین گوہر ایوب کو گرفتار کر لیا جبکہ اس دوران صدرہائوس میں پی پی پی کی پارلیمانی پارٹی کا اجلاس اوردوسری جانب وزیراعظم ہائوس میں حکمران اتحاد پارٹیوں کا اجلاس جاری تھا. جب سپیکرقومی اسمبلی کے علم میں یہ بات لائی گئی کہ انہوں نے اس پر لاعلمی کا اظہار کرتے ہوئے پی ٹی آئی رہنمائوں کو یقین دہانی کرائی کہ میں اس پر انکوائری کر کے ایکشن لونگا اور ذمہ داروں کے خلاف ایف آئی آر درج کرائوںگا اورانہوں نے فوری طورپرگرفتارپارلیمنٹ ارکان کے پروٹیکشن آرڈرجاری کر دیئے ۔ جس کے جواب میں 13 ستمبرکوہونے والے قومی اسمبلی کے ہونے والے اجلاس میں تمام گرفتار ارکان اسمبلی کواجلاس میں شرکت کے لئے پولیس کی حراست میں لایا گیا اورقائمقام سارجنٹ قومی اسمبلی کے حوالہ کیا گیا ۔اس ساری صورتحال میں پی ٹی آئی والے کیا چاہتے ہیں جب پی ٹی آئی نے جب سے سیاست میں عملی قدم رکھا ہے اور الیکشن میں حصہ لینا شروع کیا اس وقت ملک میں ایک انتشاراورافراتفری کی سی کیفیت ہے ،ملک انارکی کی جانب بڑھ رہاہے بانی پی پی آئی ہیں کہ اپنی ضد میں قائم ہیں اورہروقت ملک دشمن اقدامات پر تلے ہوئے ہیں، جیل میں بیٹھ کر سیاسی ہنگامہ آرائی سے بعض نہیں آتے اوروطن عزیز کو غیر مستحکم کرنے پر مضرہیں۔ اب غیرملکی حمایتی بھی کھل کر سامنے آگئے ہیں جو کہ عمران خان کی حراستگی پر سوال کرتے نظر آئے۔ پاکستان قوم ان سے سوال کرتی ہے ملک کے خلاف بغاوت کرنیوالوں کے ساتھ آپ کیا سلوک کریں گے؟اوراب یہ راولپنڈی اور دوبارہ لاہور میں مینار پاکستان پر جلسہ کرنے پربضد ہیں،اس کے لئے پی ٹی آئی نے انتظامیہ کو درخواستیں دی ہیں جبکہ عدالتوں سے بھی رجوع کرلیاہے.