پاکستان میں مضر صحت خوراک سے غیر متعدی امراض میں تشویشناک اضافہ ہو رہا ہے، ثناء اللہ گھمن
حکومت الٹرا پراسیڈ فوڈز پر فرنٹ آٖ ف پیک وارننگ لیبلز لگوائے تاکہ لوگوں کو صحت مند خوراک کے انتخاب میں مدد ملے
مضر صحت خوراک غیر متعدی بیماریوں کی ایک بہت بڑی وجہ ہے حکومت ان کی روک تھام کے لیے جنگی بنیادوں پر کام کرے، ورلڈ فوڈ ڈے پر ثناء اللہ گھمن کا حیدرآباد میں میڈیا سے خطاب۔
حیدرآباد(جاگیرنیوز) پاکستان میں خوراک سے متعلق غیر متعدی امراض میں تشویشناک حد تک تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ ہم اس وقت صحت کے لحاظ سے ایک بحرانی کیفیت کا شکار ہیں۔ پاکستان 3کروڑ 30لاکھ سے زیادہ مریضوں کے ساتھ ذیابیطس کے ساتھ زندہ رہنے والے لوگوں کا دنیا کا تیسر ا بڑا ملک بن چکا ہے۔ اور جس تیزی سے اس مرض میں اضافہ ہو رہا ہے اس میں پاکستان دنیا بھر میں پہلے نمبر پر ہے۔ ہر ایک منٹ کے بعد ایک شخص کو دل کا دودہ پرتا ہے۔ یہی حال موٹاپے، گردوں کی بیماریوں کا ہے جن میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ غیر صحت مند خوراک ان بیماریوں کی بڑی وجوہات میں سے ایک ہے۔ دنیا نے غیر صحت مند خوراک کے استعمال کو کم کرنے کے لیے جن پالیسیوں پر عمل کیا ان میں ان پر ٹیکسوں میں اضافہ، فرنٹ آف پیک وارننگ لیبلز، ان کی مارکیٹنگ پر پابندی اور تعلیمی اداروں کے قریب ان کی فروخت پر پابندی شامل ہے۔ یہ بات ورلڈ فوڈ سیفٹی ڈے کے موقع پر پاکستان نیشنل ہارٹ ایسوسی ایشن کی جانب سے حیدرآباد پریس کلب میں منعقدہ ایک تقریب میں کئی گئیں۔ تقریب میں شرکت کرنے والوں میں پناہ کے سیکریٹری جنرل ثناہ اللہ گھمن، جامشورو یونیورسٹی سے پروفیسر عبد الحفیظ ابڑو، لیاقت یونیورسٹی آف میڈیکل اینڈ ہیلتھ سائنسز کے پروفیسر ڈاکٹر ارشد حسین ابڑو اور ڈاکٹر احمد حسین پٹھان کے علاوہ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے نمائندگان نے شرکت کی۔ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ثناہ اللہ گھمن نے کہا کہ پناہ پچھلے 40 سال سے اپنے ہم وطنوں کو بیماریوں سے بچاؤ کی آگائی دے رہا ہے۔ آگاہی کے ساتھ ساتھ پناہ پالیسی ساز اداروں کے ساتھ مل کر ایسی پالیسیاں بنوا رہا ہے جس سے ان بیماریوں کی وجہ بننے والے عوامل کو روکا جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں ان غیر متعدی بیماریوں میں خطرناک حد تک تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ ہر منٹ کے بعد ایک شخص کو دل کا دودہ پڑ رہا ہے۔ ذیابیطس میں ہم دنیا بھر میں پہلے نمبر پر آ چکے ہیں۔ اسی طرح موٹاپے، گردوں کے امراض اور دیگر میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ صرف ذیابیطس کے علاج پر سالانہ ہونے والے اخراجات کا تخمینہ 2.7 ارب امریکی ڈالرز ہے جو آئی ایم ایف سے ملنے والی قسط سے دوگنا ہے۔ مضر صحت خوراک جیسے الٹرا پرا سیسڈ فوڈز اور میٹھے مشروبات ان بیماریوں کی ایک بڑی وجہ ہے۔ مضر صحت خوراک کے استعمال میں کمی کے لیے دنیا نے جو اہم پالیسیاں اپنا کر کامیابی حاصل کی ہے ان میں ان پر ٹیکسوں میں اضافہ، الٹرا پراسیسڈ فوڈز پر فرنٹ آف پیک وارننگ لیبلز، ان کی مارکیٹنگ پر پابندی شامل ہیں۔ پناہ کی کاوشوں سے میٹھے مشروبات پر ٹیکسوں میں اضافہ ہوا ہے لیکن یہ کافی نہیں ہے۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ حکومت ان مضر صحت مشروبات پر50فیصد ٹیکس عائد کرے اور ان پر فرنٹ آف پیک وارننگ لیبلز لگائے۔اس سے نہ صرف ان کے استعمال میں کمی سے بیماریوں میں کمی آئے گی بلکہ حکومت کے ریوینیو میں بھی اضافہ ہو گا۔ ورلڈ بینک کی ایک سٹڈی کے مطابق اگر صرف میٹھے مشروبات پر پاکستان میں 50 فیصد فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی عائد کر دی جائے تو اس سے صحت پر ہونے والے سالانہ اخراجات میں 8.9 ملین امریکی ڈالرز کی بچت ہو گی اور حکومت کو سالانہ 810 ملین امریکی ڈالرز کا ریوینیو بھی ملے گا۔ اسی طرح ہمارا مطالبہ ہے کہ حکومت الٹرا پراسیڈ فوڈز پر فرنٹ آٖ ف پیک وارننگ لیبلز لگوائے تاکہ لوگوں کو صحت مند خوراک کے انتخاب میں مدد ملے.تقریب سے خطاب کرتے ہوئے پروفیسر عبدالحفیظ ابڑو نے خوراک کے عالمی دن کے موقع پر صحت مند خوراک کو سب کے لیے قابل رسائی بنانے میں حکومت کے اہم کردار پر زور دیا۔ انہوں نے صحت کے خطرناک اعدادوشمار پر روشنی ڈالتے ہوئے کہاکہ’پاکستان کو صحت کے جس بحران کا سامنا ہے اس سے نکلنے کے لیے حکومت کو فوری اقدامات کرنا ہوں گے۔ پروفیسر ڈاکٹر عبدالحسین ابڑو نے کہا کہ زیابیطس، موٹاپا، دل کے امراض اور دیگر امراض میں جو تشویشناک اضافہ ہو رہا ہے اس میں خوراک کا ایک اہم کرادار ہے۔ میٹھے مشروبات کے ایک چھوٹے گلاس میں 7سے 8چمچ چینی موجود ہوتی ہے جو زیابیطس اور موٹاپے کا باعث بنتی ہے۔ اسی طرح الٹرا پراسیسڈ کھانوں میں چینی، نمک یا ٹرانس فیٹس کی بڑی مقدار موجود ہوتی ہے۔ اس فوڈ سیفٹی ڈے پر ہمیں یہ عہد کرنا ہو گا کہ ہم صحت مند خوراک جیسے سبزیوں اور پھلوں کا استعمال زیادہ کریں گے اور مضر صحت الٹرا پراسیسڈ فوڈز سے پرہیز کریں گے۔ انہوں نے حکومت سے بھی مطالبہ کیا کہ وہ مٖضر صحت کھانوں کے استعمال میں کمی کے لیے ضروری قانون سازی کریں۔دیگر مققرین نے بھی حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ مضر صحت خوراک کے استعمال میں کمی کے لیے ضروری قانون سازی کرے۔