90 فی صد غذاؤں میں پلاسٹک کے زہریلے ذرات کی موجودگی کا انکشاف
ماہرین کے مطابق یہ باریک ذرات کینسر، قلبی مرض، ڈیمینشیا اور بانجھ پن کے مسائل سے تعلق رکھتے ہیں-
پلاسٹک کی آلودگی کا بحران ہم سب کو متاثر کر رہا ہے اور ہمیں اس کی متعدد اقسام سے نمٹنے کے لیے اقدام لینے کی ضرورت ہے، ڈاکٹر بریٹا بیچلر
واشنگٹن: ایک نئی تحقیق میں گوشت اور پودوں پر مبنی اس کی متبادل غذاؤں کے ایسے باریک پلاسٹک ذرات سے آلودہ ہونے کا انکشاف ہوا ہے جن کا تعلق کینسر سے ہوتا ہے۔تحقیق میں سائنس دانوں نے 16 اقسام کے پروٹین کا مطالعہ کیاجس میں معلوم ہواکہ انسان چاہے پروٹین کسی بھی ذریعے سے حاصل کریں پلاسٹک ان کے جسم کا حصہ بن رہا ہے۔ ان غذاؤں چکن نگٹس، بیف اسٹیک، فش فلیٹ اور پودوں سے بنے برگر شامل تھے۔مطالعہ کی گئی اشیاء کے 90 فی صد حصے میں نینو پلاسٹک کے ذرات پائے گئے، جن کے متعلق سائنس دانوں کو تشویش ہے کہ یہ انسانی جسم میں ذخیرہ ہو کر صحت کے نامعلوم مسائل کا سبب بن سکتے ہیں۔مطالعہ کیے گئے سرلوئن اسٹیک میں سب سے زیادہ ربر کے 90 ذرات پائے گئے جبکہ دو پودوں پر مبنی بیف نمونوں میں ربر کے 40 اور 25 ذرات پائے گئے۔ماہرین کے مطابق یہ باریک ذرات کینسر، قلبی مرض، ڈیمینشیا اور بانجھ پن کے مسائل سے تعلق رکھتے ہیں۔
محققین کا خیال ہے کہ یہ غذائیں ممکنہ طور پر پیداوار، تقسیم اور پیکجنگ کے دوران استعمال ہونے والے آلات اور شامل کیے جانے والے اجزاء یا فضائی ذرات کے سبب آلودہ ہوتی ہیں۔ایک غیر منافع بخش ادارے اوشیئن کنزروینسی کی ایسوسی ایٹ ڈائریکٹر اور تحقیق کی شریک مصنفہ ڈاکٹر بریٹا بیچلر کا کہنا تھا کہ یہ ہمارے لیے ایک تشویش ناک انتباہ ہے کہ کس حد تک پلاسٹک کی آلودگی کس طرح پھیل گئی ہے۔ اور ایسا لگتا ہے کہ آپ کچھ بھی کھا لیں آپ اس سے فرار اختیار نہیں کر سکتے۔ان کا کہنا تھا کہ پلاسٹک کی آلودگی کا بحران ہم سب کو متاثر کر رہا ہے اور ہمیں اس کی متعدد اقسام سے نمٹنے کے لیے اقدام لینے کی ضرورت ہے۔