ذیابیطس پاکستان کے لیے ایٹم بم،ہر تیسرا بالغ پاکستانی ذیابیطس کا شکار ہ
ذیابیطس روزانہ 1100 لوگوں کو کھا جاتی ہے اور اس پر ہر سال 740 ارب خرچ ہو رہے ہیں
اگر اسے روکنے کی کوشش نہ کی گئی تو 2045ء میں 6کروڑ 20 لاکھ لوگ اس کا شکار ہو جائیں گے،حکومت ضروریات زندگی کی بجائے ان بیماریوں کی وجہ بننے والی غیر صحت مند خوراک پر ٹیکس بڑھائے ، مائرین صحت کا زیابیطس کے عالمی دن پر حکومت سے اپنا کردار ادا کرنے کا مطالبہ
اسلام آباد۔ پاکستان میں ذیابیطس کے مرض میں مبتلا افراد کی تعداد 62 لاکھ سے بڑھ کر 2021ء میں 3 کروڑ 30 لاکھ تک پہنچ گئی ہے۔ ذیابیطس میں تیزی سے اضافے نے پاکستان کو بیماریوں کے پھیلاؤ کی شرح کے لحاظ سے عالمی سطح پر پہلے نمبر پر رکھا ہے جہاں ہر تیسرا بالغ پاکستانی ذیابیطس کا شکار ہے۔ پاکستان میں روزانہ تقریباً 1100 اموات ذیابیطس یا اس کی پیچیدگیوں سے ہوتی ہیں۔ اگر فوری طور پر کوئی پالیسی اقدام نہ اٹھایا گیا تو 2045ء تک ذیابیطس کے شکار لوگوں کی تعداد 6 کروڑ 20 لاکھ تک پہنچ جائے گی۔ ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ خاص طور پر صنعتی طور پر تیار کی جانے والی ٹرانس فیٹس، میٹھے مشروبات اور جنک فوڈ کا استعمال بیماریوں میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ پراسیس شدہ کھانوں، تلی ہوئی اشیاء اور بیکڈ اشیا میں پائی جانے والی ٹرانس فیٹس انسولین کے خلاف مزاحمت کو بڑھانے، خراب کولیسٹرول (LDL) کو بڑھانے اور سوزش کو فروغ دیتے ہیں – یہ سب ٹائپ 2 ذیابیطس اور قلبی امراض کا خطرہ بڑھاتے ہیں۔ دنیا نے میٹھے مشروبات اور دیگر الٹرا پراسیسڈ فوڈز پر ٹیکسوں میں اضافہ کر کے اور ان پر فرنٹ آف پیک وارننگ لیبلز لگانے جیسے اقدامات کر کے ان کے استعمال میں کمی کی جس سے زیا بیطس اور دیگر بیماریوں میں کمی آئی۔ یہ بات سول سوسائٹی تنظیموں پاکستان نیشنل ہارٹ ایسوسی ایشن (PANAH)، ہارٹ فائل، سینٹر فار پیس اینڈ ڈیویلپمنٹ انیشی ایٹیو، پاکستان یوتھ چینج ایڈووکیٹس کے نمائندوں نے ذیابیطس کے عالمی دن کے موقع پر اسلام آباد نیشنل پریس کلب کے سامنے منعقدہ واک کے دوران کہی۔مہمانوں میں ڈاکٹر عبدالقیوم اعوان سینئر ایگزیکٹو نائب صدر پاکستان نیشنل ہارٹ ایسوسی ایشن (PANAH)، افضل بٹ صدر یونین آف جرنلسٹ، انور رضا صدر اسلام آباد پریس کلب، ڈاکٹر صبا امجد- سی ای او ہارٹ فائل، منور حسین کنٹری کوآرڈینیٹر گلوبل ہیلتھ ایڈووکیسی انکیوبیٹر (GHAI)، PYCA کی ایگزیکٹیو ڈائریکٹر محترمہ اریبہ شاہد، مختار احمد علی- ایگزیکٹو ڈائریکٹر سینٹر فار پیس اینڈ ڈویلپمنٹ انیشیٹو (CPDI)، جناب ثناء اللہ گھمن جنرل سیکرٹری پاکستان نیشنل ہارٹ ایسوسی ایشن (PANAH)، سول سوسائٹی کے نمائندے، میڈیا، طلباء، اساتذہ، صحت کے ماہرین اور زندگی کے تمام شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد نے شرکت کی
منور حسین نے کہا کہ میٹھے مشروبات خوراک میں شکر کی مقدار بڑھانے کا سب سے بڑا ذریعہ ہیں۔ مائع شوگر جسم کے میٹابولزم کو تبدیل کرتی ہے، ضرورت سے زیادہ کیلوریز کو فروغ دیتی ہے جس سے ذیابیطس ٹائپ ٹو اور بہت سی دیگر مہلک بیماریاں جنم لیتی ہیں۔اس موقع پرثناء اللہ گھمن نے کہا کہ شوگر والے مشروبات پر زیادہ ٹیکس ذیابیطس اور دیگر مہلک غیر متعدی بیماریوں کے پھیلاؤ کو کم کرنے کے لیے ایک مؤثر حکمت عملی ثابت ہوتا ہے۔ بحرین، مراکش، عمان، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور قطر سمیت تقریباً 50 ممالک نے یہ طریقہ کامیابی سے اپنایا ہے۔ ان اقدامات کے نتائج نے ان ممالک میں شوگر والے مشروبات کے استعمال میں نمایاں کمی اور ذیابیطس کے پھیلاؤ کو کم کرنے میں مدد کی ہے۔ہارٹ فائل کی ڈاکٹر صباء امجد یوتھ چینج ایڈووکیٹ کی میڈم اریبہ سنٹر فار پیس اینڈ ڈویلپمنٹ انیشیٹو کے جناب مختار صاحب کے اپنے اپنے خطاب میں حکومت پر زور دیا کہ اس بم کو پھٹنے سے پہلے حکومت اپنے عوام کی صحت کو بچا نے کے لیے ضروری اقدامات کرے