چین نے ایشیا بحرالکاہل تعاون میں نئی جہت ڈال دی

انڈونیشیا کے علاقے پادالارنگ میں جکارتہ-بین ڈونگ تیز رفتار ریلوے کے پادالارنگ سٹیشن کے پلیٹ فارم پر تیز رفتار برقی ٹرین(ای ایم یو) کے ساتھ شیر رقص کرنے والوں کا ایک انداز-(شِنہوا)

ہانگ کانگ(شِنہوا)عالمگیریت کے خلاف خطرناک جذبات، بڑھتی ہوئی تحفظ پسندی اور یکطرفہ اقدام سے دوچار عالمی معیشت میں فراخدلی اور تعاون انتہائی اہمیت کے حامل ہیں اور انہیں نئی زندگی کی اشد ضرورت ہے۔
سال 2024 میں چین نے ایشیا بحرالکاہل میں تعاون کو فروغ دینے کی مسلسل کوشش کی ہے اور اس بات کو یقینی بنایا ہے کہ یہ خطہ اقتصادی عالمگیریت کے لئے ایک محرک قوت رہے۔قصبوں، شہروں اور ممالک کو بہتر سڑکوں، ریلوے اور بندرگاہوں سے جوڑنا طویل عرصے سے چین کے مجوزہ بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (بی آر آئی) کا مرکز رہا ہے۔ ایشیا بحرالکاہل کے خطے کے بہت سے ممالک نے ٹرانسپورٹ کی بنیادی شہری سہولتوں کو جدید بنانے کے باعث لوگوں کے ذریعہ معاش میں آنے والی زبردست تبدیلیوں کا مشاہدہ کیا ہے۔انڈونیشیا میں جکارتہ – بین ڈونگ تیز رفتار ریلوے چین کے تعاون سے تعمیر کردہ جنوب مشرقی ایشیا کی پہلی تیز رفتار ریل کے طور پر ایک تاریخی منصوبہ ہے جو 17 اکتوبر 2023 کو باضابطہ طور پر فعال ہوا ، جس سے مجموعی طور پر 57لاکھ 90ہزار مسافر اب تک مستفید ہوچکے ہیں۔بنیادی سہولت کے ایک اور انقلابی منصوبے چائنہ-لاؤس ریلوے نے علاقائی رابطوں میں نمایاں اضافہ کیا ہے جو چین کے جنوب مغربی صوبہ یون نان کے کنمنگ اور لاؤس کے دارالحکومت وینتیان کوملاتا ہے۔وینتیان میں پھل بیچنے والے سومسوانہ نے شِنہوا کو بتایا کہ ریلوے لاؤس کو چین سے براہ راست جوڑتی ہے، جو دنیا کی سب سے بڑی صارفین کی منڈیوں میں سے ایک ہے۔عالمی تبادلوں اور نقل و حرکت کو آسان بنانے اور دنیا کی دوسری سب سے بڑی معیشت کی حیثیت سے زیادہ سے زیادہ فراخدلی کے اپنے عزم کا اعادہ کرنے کی کوششوں کے ایک حصے کے طور پر چین نے 2024 میں مزید ممالک بشمول آسٹریلیا ، نیوزی لینڈ ، جنوبی کوریا اور جاپان کو ایشیا بحر الکاہل کے خطے میں شامل کرنے کے لئے اپنے یکطرفہ آزاد ویزا انتظام میں توسیع کی ہے۔دریں اثنا ملائیشیا، تھائی لینڈ اور سنگاپور نے بالترتیب چین کے ساتھ ایک دوسرے کے شہریوں کے لئے سفری ویزا کی شرائط کو ختم کرنے پر اتفاق کیا ہے۔ٹی سی ایل کے بانی اور چیئرمین لی ڈونگ شینگ نے سپلائی چین کو مضبوط بنانے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ہم صرف مقامی طور پر تیار کرنے والی فیکٹری نہیں بن سکتے۔پاکستان کے جنوب مغربی صوبہ بلوچستان میں گوادر بندرگاہ سے چند گز کے فاصلے پر ایک متحرک جنگل کا حوالہ دیتے ہوئے 57 سالہ محمد اقبال نے کہا کہ یہ جگہ کبھی بنجر ہوا کرتی تھی، دن بھر گرد و غبار کے سوا کچھ نہیں ہوتا تھا۔ایک دن چائنہ اوورسیز پورٹ ہولڈنگ کمپنی کے ایک چینی منیجر نے مجھے بتایا کہ وہ اس زمین کو جنگل میں تبدیل کرنے جا رہے ہیں اور اس طرح یہ سب شروع ہوا۔دونوں اطراف کی مشترکہ کاوشوں سے گوادر کے دوستی جنگل میں 4 ہزار سے زائد پودے لگائے جا چکے ہیں۔ کبھی خالی رہنے والا یہ پلاٹ اب ایک سرسبز و شاداب پناہ گاہ میں تبدیل ہو چکا ہے جو گوادر کے لوگوں کو خوبصورت مناظر اور تازہ ہوا فراہم کرتا ہے۔چینی سفیر کے گرین ایمپلائمنٹ پلان منصوبے کے ایک اہم جزو کے طور پر جنگلات نے گوادر میں مقامی روزگار کو فروغ دینے اور کسانوں کی آمدنی میں اضافہ کرنے میں بھی مدد کی ہے۔جنگل کے ایک اور فاریسٹر اللہ بخش نے کہا کہ جنگل میں لگائے گئے درختوں اور جھاڑیوں نے بھیڑوں کے فارم کے لئے بڑی مقدار میں چارہ فراہم کیا ہے۔ چینی عملے نے مقامی کسانوں کو فصل کی پیداوار بڑھانے کے لئے کٹنگ، گرافٹنگ، سائنسی جڑی بوٹیوں اور کھاد جیسی تکنیک بھی سکھائی ہیں۔ترقی پذیر معیشتوں اور پسماندہ گروہوں کی حمایت میں اضافہ کرنا ایشیا بحرالکاہل کی ترقی کے ایک نئے دور کے آغاز کے لئے چین کا وژن رہا ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ معیشتوں اور لوگوں کو ترقی سے فائدہ اٹھانے کا موقع مل سکے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں