کم کا مطلب زیادہ –کیوں چین کی آبادیاتی تبدیلیاں اس کی معیشت کو نقصان نہیں پہنچائیں گی

بیجنگ(شِنہوا)گھٹتی ہوئی اور عمر رسیدہ آبادی اکثر اقتصادی ترقی کے حوالے سے خدشات کا باعث بنتی ہے تاہم چین میں ان چیلنجز سے تیز ترین معاشی تنظیم نو اور جامع رد عمل کے ذریعے نمٹاجاتا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کم کا مطلب درحقیقت زیادہ ہے۔2024 میں بھی چین کی آبادی میں کمی جاری رہی۔چین کے قومی ادارہ شماریات نے بتایا کہ 2024 کے اختتام پر مجموعی آبادی 1.40828 ارب تھی جس میں 2023 کے اختتام کے مقابلے میں 13 لاکھ 90 ہزار کی کمی ہوئی۔اس سے قوم کو درپیش آبادیاتی چیلنجز اجاگر ہوتے ہیں۔اسی اثناء میں 7 سال کمی کے بعد پہلی مرتبہ پیدائش میں اضافہ ہوا۔اس کی وجہ کووڈ کے بعد ڈریگن سال میں بچوں کی پیدائش میں اضافہ اور حکومت کے پیدائش کے حق میں اضافی اقدامات ہیں۔چین کی معیشت میں بھی مسلسل 5 فیصد اضافہ ہوا۔چین کی رین مِن یونیورسٹی کے سکول آف پاپولیشن اینڈ ہیلتھ کے ڈین ڈو پھینگ نے کہا کہ آبادی میں تبدیلیوں اور معاشی ترقی کے محرکات سمجھنے کے لئے آبادی میں مسلسل اضافے کے بجائے طویل مدتی متوازن ترقی کو ترجیح دینی چاہئے۔سٹیٹ کونسل کے ترقیاتی تحقیقی مرکز کی حالیہ رپورٹ کے مطابق آمدنی کی سطح میں اضافے سے ممالک کو عام طور پر شرح افزائش میں کمی اور آبادی کی نمو میں سست روی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ایک کروڑ سے زائد آبادی پر مشتمل 37 درمیانی اور اعلیٰ آمدن والے ممالک میں سے 17 ممالک کو آبادی میں کمی کا سامنا کرنا پڑا۔چین کی تیز رفتار صنعت کاری سے یہ تبدیلیاں بہت سی دوسری قوموں کے مقابلے میں پہلے ہوئی ہیں جو منفرد چیلنجز کے ساتھ مواقع بھی اجاگر کرتی ہیں۔رپورٹ کے مطابق کم ہوتی ہوئی افرادی قوت،سرمایہ کاری کی کمزور ہوتی رفتار اور دیگر منفی اثرات کے باوجود چھوٹی آبادی کے بھی مثبت اثرات ہوتے ہیں۔یہ وسائل اور روزگارپر دباؤ کم کرتی ہے اور بنیادی شہری سہولیات اور عوامی خدمات تک فی کس رسائی میں اضافہ کرتی ہے۔آبادی میں کمی کو ایک رکاوٹ کے طور پر دیکھنے کے بجائے چین نئی طرز کی اقتصادی ترقی کے لئے اس سے مستفید ہو رہا ہے۔تخلیقی ملکیتی حقوق کی عالمی تنظیم کے مطابق گزشتہ دہائی میں کام کی عمر کی آبادی میں کمی کے باوجود چین عالمی تخلیقات کی درجہ بندی میں ترقی کرتے ہوئے اب 11ویں درجے پر آ گیا ہے۔جس طرح آبادیاتی تقسیم نے اصلاحات اور وسعت کے بعد چین کی معاشی ترقی میں اہم کردار ادا کیا اسی طرح ٹیلنٹ کی تقسیم اب ملک کی تخلیقی جدت پر مبنی ترقی کو آگے بڑھا رہی ہے۔معاشی تعاون اور ترقی کی تنظیم(او ای سی ڈی) کے معیارات پر مبنی رپورٹ میں ظاہر کیا گیا کہ چین کی سائنس اور ٹیکنالوجی کی افرادی قوت امریکہ سے 1.3 گنا اور بھارت سے 5.5 گنا زائد ہے۔اس کے علاوہ ملک اگلی دہائی میں اپنی افرادی قوت میں سالانہ ایک کروڑ 10 لاکھ کالج کے تعلیم یافتہ کارکنوں کا اضافہ کرنے جا رہا ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں