چین میں ڈرون پائلٹ نئے ابھرتے ہوئے پیشے کے طور پر سامنے آگئے

کونمنگ-ووہان(شِنہوا)بلنڈ ڈھلوانوں پر کھیتی باڑی ڈرونز کی ایجاد سے پہلے تک ہمیشہ سے مشکل کام رہا ہے۔ڈرونز ایک ایسی ارتقائی قوت ہے جو مقبول پیشے میں نئی لہر کا راستہ ہموار کر رہی ہے۔
40 کلو کیلے مضبوطی سے اٹھا کر ایک ڈرون چین کے جنوب مغربی صوبے یون نان کے ناہموار پہاڑوں سے اڑا۔یہ مہم لی شیان چھوان نے مکمل کی۔وہ 2 دہائیوں تک ٹرک سے سامان کی ترسیل کرنے کے بعد 40 سال کی عمر میں ٹرک فروخت کر کے ریموٹ خرید کر ڈرون پائلٹ بن گیا۔2024 میں جب کم بلندی کی حامل معیشت نے ٹیکنالوجی اور اس مہم میں سرمایہ کاری کے حلقوں میں مرکزی مقام حاصل کیا تو ای وی ٹول طیاروں یا اڑتی ہوئی گاڑیوں جیسی مستقبل کی رغبت سے بھرپور ایجادات نے تیزی سے لوگوں کے ذہنوں پر قبضہ جمایا اور مارکیٹ کا جوش بڑھایا۔تاہم جو بات لی کے پہاڑی باغ میں سامنے آئی وہ ٹیکنالوجی کی تکنیک کے بھرپور مظاہرے سے آگے بڑھ چکی ہے۔یہاں مقامی کسانوں نے ہمیشہ عملی اور حقیقی دنیا کے حل کو ترجیح دی ہے جو ٹھوس فرق فراہم کرتے ہیں۔درجہ حرارت کے بڑے فرق والے اس علاقے میں کیلے میٹھے ہوتے ہیں تاہم پھل کو خود سے ڈھلوان نما پہاڑ سے نیچے لے جانے سے اسے نقصان پہنچتا ہے یا داغ لگ جاتے ہیں جس سے اس کا معیار کم اور درآمدات کی نسبت اس کی مسابقت کم ہو جاتی ہے۔ڈرون کے شوقین افراد سے لے کر ڈرون پر مبنی کیڑے مار ادویات میں مہارت رکھنے والے پیشہ ور افراد تک بڑی تعداد میں افراد لی جیسے روزگار پر منتقل ہو رہے ہیں۔ڈرون کے ذریعے ترسیل نئے کاروبار کی نشاندہی کرتی ہے جس کے ہنر مند آپریٹرز کی پوری نہ ہونے والی بہت بڑی مانگ ہے۔جون 2024 تک چین میں 18 لاکھ 75 ہزار رجسٹرڈ ڈرون تھے تاہم صرف 2 لاکھ 25 ہزار لائسنس یافتہ پائلٹ موجود تھے جس سے 10 لاکھ آپریٹرز کی بڑی کمی ظاہر ہوتی ہے۔اس رفتار سے ہم آہنگ ہونے کے لئے قوم کی معاشی منصوبہ بندی کے ادارے نے ڈیجیٹل بنیادی شہری سہولیات کو آگے بڑھانے کے لئے مخصوص شعبہ قائم کیا ہے جس سے اس شعبے کو تیز تر وسعت حاصل ہوگی۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں