اسماعیلی کمیونٹی کے 49 ویں روحانی پیشوا پرنس کریم آغا خان انتقال کر گئے
روایات کے تحت ان کے جانشین یعنی اسماعیلی کمیونٹی کے 50 ویں حاضر امام کو نامزد کر دیا گیا
لزبن: (جاگیرنیوز) اسماعیلی کمیونٹی کے روحانی پیشوا پرنس کریم آغا خان انتقال کر گئے۔
اعلامیے کے مطابق 88 سالہ پرنس کریم آغا خان کا انتقال پرتگال کے دارالحکومت لزبن میں ہوا، پرنس کریم آغا خان اسماعیلی کمیونٹی کے 49 ویں امام تھے، انکی نماز جنازہ اور تدفین بھی لزبن میں ہی کی جائے گی، تاریخ اور وقت کا اعلان انتظامات کو حتمی شکل دیئے جانے پر کیا جائے گا۔روایات کے تحت ان کے جانشین یعنی اسماعیلی کمیونٹی کے 50 ویں حاضر امام کو نامزد کر دیا گیا، جانشین کی نامزدگی پرنس کریم آغا خان نے اپنی وصیت میں کی تھی، پرنس کریم آغا خان اپنے فلاحی کاموں اور انسانیت کی خدمت کیلئے جانے جاتے تھے۔اسماعیلی عقیدے کے مطابق کبھی ایسا نہیں ہوا کہ جماعت امام کے بغیر ہوئی ہو، جیسے ہی امام اس جسمانی دنیا سے رخصت اختیار کرتے ہیں ان کی روحانی روشنی ان کے نامزد جانشین کو منتقل ہو جاتی ہے اور یہ سلسلہ 1400 برس سے قائم ہے۔
اعلامیہ میں کہا گیا ہےکہ ایک ایسے موقع پر کہ جب اسماعیلی کمیونٹی مولانا شاہ کریم کی زندگی اور ان کے ورثہ کی تکریم کرتی ہے اور شکرگزار ہے، ساتھ ہی وہ حاضر امام کے نور اور محبت سے تحفظ کا احساس کرتی ہے۔
اسماعیلی امامت کے دیوان کے مطابق پرنس کریم آغا خان اسماعیلی مسلم کمیونٹی کے 49 ویں امام یعنی روحانی لیڈر تھے، وہ پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیٹی حضرت بی بی فاطمہ اور پیغمبر اسلام کے کزن حضرت علی علیہ سلام کی نسل سے تھے۔پرنس کریم آغا خان 1936 میں سوئٹزرلینڈ میں پیدا ہوئے اور بچپن کے ابتدائی ایام نیروبی میں گزارے، انہوں نے 1957 میں 20 برس کی عمر میں امامت سنبھالی تھی، پرنس کریم آغا خان پرنس علی خان کے بڑے بیٹے تھے، پرنس کریم کے دادا سر سلطان محمد شاہ آغا خان سوم تھے۔انہوں نے سوئٹزرلینڈ کے Le Rosey سکول اور پھر 1959 میں ہارورڈ یونیورسٹی سے اسلامی تاریخ میں بیچلر آف آرٹس کی ڈگری لی تھی، آغا خان سوم نے تیرہ سو برس کی تاریخی روایات کے برعکس بیٹے کی جگہ پوتے کو جانشین بنایا تھا۔پرنس کریم آغا خان کو برطانوی شہریت بھی دی گئی تھی مگر زندگی کا زیادہ تر عرصہ انہوں نے فرانس میں گزارا، وینٹی فئیر میگزین نے انہیں ون مین اسٹیٹ کا نام دیا تھا، ان کی پہلی اہلیہ برطانوی ماڈل سیلی کروکر Sally Croker-Poole تھیں جن سے انکی شادی 1969 میں ہوئی،سیلی کروکر سے پرنس کریم کے دو بیٹے اور ایک بیٹی ہوئیں۔یہ شادی پچیس برس چلی جس کے بعد انہوں نے 1998 میں شہزادی Gabriele zu Leiningen سے پیرس کے نواحی علاقے میں شادی کی، جرمن شہزادی نے اسلام قبول کرکے اپنا نام انارہ اختیار کرلیا تھا، جوڑے کا ایک بیٹا ہوا تاہم 6 برس بعد جوڑے نے علیحدگی اختیار کرلی، پرنس کریم آغا خان کے 3 بیٹے رحیم آغا خان، علی محمد آغا خان اور حسین آغا خان ہیں جبکہ ایک بیٹی زہر آغا خان ہیں۔پرنس کریم آغا خان نے اپنی زندگی پسماندہ طبقات کی زندگیوں میں بہتری لانے میں صرف کی، وہ اس بات پر زور دیتے رہے تھے کہ اسلام ایک دوسرے سے ہمدردی، برداشت اور انسانی عظمت کا مذہب ہے۔آغا خان ڈویلپمنٹ نیٹ ورک کے ذریعے انہوں نے دنیا کے مختلف خطوں خصوصاً ایشیا اور افریقا میں فلاحی اقدامات کیے، یہ اقدامات زیادہ تر تعلیم، صحت، معیشت اور ثقافت کے شعبوں میں تھے، صرف سن 2023 میں آغا خان فاؤنڈیشن نے 58 ملین پاؤنڈ وقف کئے تھے۔پرنس کریم آغا خان نے امریکا کے صدر رونالڈ ریگن اور سابق سوویت یونین کے صدر میخائل گورباچوف کی جنیوا میں سفارتی بات چیت ممکن بنائی تھی، وہ گھوڑوں کے شوقین تھے اور فرانس میں گھڑ دوڑ اور بریڈنگ کے سب سے بڑے ادارے کے مالک تھے، ان کے مشہور ترین گھوڑوں میں Shergar بھی تھا جس نے 1981 میں ایپسن ڈربی ریس میں رکارڈ قائم کیا تھا۔تاہم اس گھوڑے کو آئرش فارم سے مبینہ طور پر آئی آر اے کے اراکین نے چُرا کر 2 ملین پاؤنڈ تاوان طلب کیا گیا تھا، تاہم ٹیلی فونک رابطوں کے بعد اغواکاروں نے رابطے ختم کر دیئے تھے اور گھوڑے کا اس کے بعد کچھ پتہ نہ چل سکا تھا۔پرنس کریم کو مختلف ممالک اور یونیورسٹیوں کی جانب سے اعلیٰ ترین اعزازات اور اعزازی ڈگریوں سے نوازا گیا تھا۔