حکومت کو ٹی ٹی پی کے مختلف دھڑوں میں فرق کرنا چاہیے، عمران خان

لاہور: چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے کہا ہے کہ حکومت کو ٹی ٹی پی کے مختلف دھڑوں میں فرق کرنا چاہیے۔
برطانوی نشریاتی ادارے کو دیئے گئے انٹرویو میں عمران خان نے کہا کہ تحریک طالبان پاکستان کے کچھ دھڑوں کی بحالی ممکن ہے، دیگر کے خلاف طاقت استعمال کرنے کا آپشن استعمال کیا جا سکتا ہے، لیکن یہ آخری راستہ ہونا چاہیے۔ حکومت کو دیکھنا ہوگا کہ ٹی ٹی پی کے کون سے گروپ تشدد ترک کر سکتے ہیں اور کسے بحال کیا جا سکتا ہے۔
پاکستان اور امریکا کے مابین تعلقات سے متعلق سوال کا جواب دیتے ہوئے سابق وزیراعظم نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکا کی حمایت پر مبنی پالیسی سے اختلاف کا یہ مطلب نہیں کہ میں امریکا کے خلاف ہوں، انہوں نے کہا کہ امریکا سمیت دیگر تمام ممالک کے ساتھ پاکستان کے اچھے تعلقات ضروری ہونے چاہییں۔
ملکی معیشت پر گفتگو کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ معاشی استحکام کی صرف ایک ہی صورت ہے کہ ملک میں صاف، شفاف اور منصفانہ انتخابات کیے جائیں۔ معاشی استحکام سے قبل سیاسی استحکام ناگزیر ہے، جس کا واحد حل جلد از جلد انتخابات کا انعقاد ہے۔ اس کے بعد ملک میں قانون کی مکمل حکمرانی کے لیے سخت فیصلے کیے جانے ضروری ہیں۔
عمران خان کا کہنا تھا کہ سرمایہ کاروں کی دلچسپی گڈگورننس سے پیدا ہوتی ہے اور اس کا ذریعہ قانون کی حکمرانی کے سوا کچھ اور نہیں جب کہ اس وقت ملک میں طاقت ور کو پکڑنے کا کوئی قانون نہیں ہے اور یہی حالات ملک میں بیرونی سرمایہ کاری آنے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ ملکی معیشت بحال کرنے کے لیے سرمایہ کاری لانی ہوگی۔ انہوں نے واضح کیا کہ میں نے کبھی مغرب پر الزام نہیں لگایا کہ انہوں نے مجھے مارنے کی کوشش کی۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت پاکستان کے پاس آئی ایم ایف کے پاس جانے کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں، ورنہ ملک ڈیفالٹ ہو سکتا ہے، جس کے نتیجے میں پاکستان کو بہت نقصان ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت میں اتنی صلاحیت ہی نہیں ہے۔
فوج کے سیاست میں عمل دخل سے متعلق سوال پر عمران خان نے کہا کہ ذمے داری اگر جمہوری حکومت کی ہے تو اختیار بھی اُس ہی کے پاس ہونا چاہیے۔ اس طرح کوئی نظام نہیں چل سکتا کہ ذمے داری جمہوری حکومت کی ہو اور اختیار فوج کے پاس ہوں۔ انہوں نے کہا کہ فوج سے متعلق میرا مؤقف زیادہ تبدیل نہیں ہوا ہے۔
عمران خان کا کہنا تھا کہ پاکستان بننے کے بعد سے اب تک زیادہ تر ادوار براہ راست فوجی حکومت کے رہے ہیں جب کہ باقی ادوار بھٹو اور شریف خاندانوں نے ملک پر حکومت کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کی سیاسی تاریخ کی وجہ سے فوج کے سیاسی کردار کو راتوں رات ختم نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن اس کا آغاز کیا جا سکتا ہے کہ اگر کسی چیز کی ذمے داری سویلین حکومت کی ہے تو پھر اختیار بھی سویلین حکومت کے پاس ہونا چاہیے۔
چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ قاتلانہ حملے کے بعد میں احتیاط ضرور کروں گا، تاہم ایسا نہیں کہ میں خوفزدہ ہوکر اندر بیٹھ جاؤں۔ میں ضرور باہر نکلوں گا۔ میرے خلاف ایسا کوئی کیس نہیں جس پر مجھے نااہل کیا جا سکتا ہو، لیکن اس کے لیے بھرپور کوشش کی جا رہی ہے۔ ہر دوسرے دن میرے خلاف ایک نیا مقدمہ سامنے آتا ہے۔ اگر مجھے نااہل کربھی دیا گیا تو پھر بھی انتخابات تو ہوں گے۔
ایک سوال کے جواب میں عمران خان کا کہنا تھا کہ میری غیر موجودگی میں پارٹی سربراہ کون ہوگا، اس حوالے سے وقت آنے پر دیکھا جائے گا۔ ہمارے مطالبات تسلیم نہ کیے گئے تو ہم عوام میں جائیں گے۔ ہم نے ماضی میں بھی پرامن احتجاجی مظاہرے کیے ہیں، آئندہ بھی یہی لائحہ عمل اختیار کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کے لیے اس وقت سب سے بڑا خطرہ معاشی عدم استحکام کا ہے، سیاسی عدم استحکام اس سے بھی زیادہ بڑا ہے۔ اس کے بعد بڑھتی ہوئی شدت پسندی بھی ملک کے لیے خطرہ ہے۔ عمران خان نے کہا کہ سیاسی عدم استحکام کا آغاز تبھی ہوگیا تھا جب ایک آرمی جنرل کی زیر قیادت سازش کے ذریعے اچھی کارکردگی کی حامل حکومت کو ختم کردیا گیا تھا۔
عمران خان نے کہا کہ سابق آرمی چیف کی پولیٹیکل انجینئرنگ کا نتیجہ یہ ہوا کہ ٹی ایل پی کے جنگجوؤں اور ان کے خاندانوں سے متعلق اتفاق رائے پر عمل نہیں ہوسکا۔ ان کی مجوزہ بحالی ممکن نہیں ہو سکی اور شدت پسندی کا خطرہ بڑھنے کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت ملک میں شدت پسندانہ کارروائیاں غیر معمولی سطح تک بڑھ چکی ہیں۔ انہوں نے دعویٰ کیا اگر ہماری حکومت ہوتی تو ایسی صورت حال نہ ہوتی۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں