آئی ایم ایف نےپیشگی اقدامات پورے کرنے کے حکومتی دعوے کی نفی کردی، معاہدہ بجٹ سے مشروط

نویں جائزے کی منظوری کو بجٹ سے نہیں جوڑنا چاہیے،وزارت خزانہ۔ فوٹو: فائل

اسلام آباد:(ویب نیوز) وزارت خزانہ کے سینئر حکام کا موقف ہے کہ آئی ایم ایف کو نویں جائزے کی منظوری کو بجٹ سے نہیں جوڑنا چاہیے، بجٹ کا معاملہ 11ویں جائزہ کیلیے بحث کے وقت اٹھایا جانا چاہیے. کابینہ کے ایک رکن نے کہا کہ آئی ایم ایف کا مطالبہ تشویشناک ہےوزارت خزانہ آئی ایم ایف کے نئے مطالبے سے ناراض دکھائی دے رہی ہے۔
آئی ایم ایف نے کہا ہے کہ پاکستان کیلئے 1.2 ارب ڈالر بیل آؤٹ پروگرام کا 9واں جائزہ اس وقت مکمل ہو گا جب ضروری فنانسنگ ہو جائے گی تب معاہدے کو حتمی شکل دی جائے گی۔ آئی ایم ایف کے بیان میں پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان بڑھتے ہوئے اعتماد کے فقدان کو اجاگر کیا گیا ہے۔

بیان 9ویں جائزے کو مکمل کرنے کیلیے ضروری تمام پیشگی اقدامات کو پورا کرنے کے حکومتی دعوے کی نفی کرتا ہے،آئندہ مالی سال کے بجٹ سمیت آئی ایم ایف کی ان پالیسیوں کے بارے میں جو وہ نافذ کرنا چاہتا ہے، وزارت خزانہ کے حکام اس کو ایسا مطالبہ قرار دیتے ہیں جو گول پوسٹ تبدیل کرنے کے مترادف ہے۔

پاکستان میں آئی ایم ایف کے مشن چیف ناتھن پورٹر نے کہا ہے کہ پاکستانی حکام کے ساتھ ضروری فنانسنگ اور 9ویں جائزے کی تکیمیل کیلئے کام جاری رکھے ہوئے ہیں تاکہ حتمی معاہدے انجام پا سکے، وزیر اعظم شہباز شریف اور وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے دعویٰ کیا تھا کہ پاکستان نے اسٹاف لیول معاہدے کی تمام پیشگی شرائط پوری کر دی ہیں لہذا حتمی معاہدہ نہ ہونے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔

جمعرات کوایک انگریزی روزنامہ میں شائع اپنے مضمون میں وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے دعویٰ کیا تھا کہ پاکستان نے پہلے ہی آئی ایم ایف کے ساتھ نویں جائزے کیلئے تمام پیشگی اقدامات کی تعمیل کر لی ہے، توقع تھی کہ آئی ایم ایف کے ساتھ سٹاف لیول معاہدے پر جلد دستخط کیے جائیں گے جس کے بعد آئی ایم ایف بورڈ کی جانب سے 9 ویں جائزے کی منظوری دی جائے گی۔

آئی ایم ایف کے مشن چیف ناتھن پورٹر کے مذکورہ بیان نے اس بات کی نفی کر دی جس کا پاکستانی حکام 9 فروری سے دعویٰ کر رہے ہیں۔ جب دو طرفہ بات چیت بے نتیجہ ختم ہوگئی تھی،ناتھن پورٹر نے ضروری فنانسنگ کی مقدار کی وضاحت نہیں کی جو پاکستان کو 1.2 ارب ڈالر قرض کے حصول اور 9 ویں جائزے کی تکمیل کیلئے ظاہر کرنا ہے،جو پہلے ہی سات ماہ کی تاخیر کا شکار ہے۔

وزیر خزانہ نے کہا تھا کہ پاکستان کو رواں سال جون تک مالیاتی خسارا کو پورا کرنے کے لیے 6 ارب ڈالر کی ضرورت ہے۔ جس میں سے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے پاکستان کو 3 ارب ڈالر فراہم کرنے کی یقین دہانی کرائی تھی ، پاکستان کے مجموعی سرکاری زرمبادلہ کے ذخائر 4.5 ارب ڈالر پر برقرار ہیں۔

ذرائع نے بتایا کہ پاکستان کو آئندہ مالی سال کی پہلی ششماہی کے دوران قرضوں کی ادائیگی کے لیے بھی فنڈز کا بندوبست کرنے کی ضرورت ہے۔
وزارت خزانہ کے ذرائع نے بتایا کہ جولائی تا دسمبر کی مدت کیلیے بیرونی قرضوں کی ادائیگی بشمول سود 11 ارب ڈالر ہے، اگر چین اور سعودی عرب اپنے مختصر مدت کے قرض رول اوور کر دیتے ہیں، تب بھی پاکستان کو اگلے مالی سال کی پہلی ششماہی کے دوران بین الاقوامی قرض دہندگان کو ادائیگی کے لیے 4 ارب ڈالر سے زیادہ کی ضرورت ہوگی۔ ان میں ورلڈ بینک، ایشیائی ترقیاتی بینک، سعودی فنڈ برائے ترقی، اسلامی ترقیاتی بینک اور چینی کمرشل بینکوں کو ادائیگیاں شامل ہیں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں