کشمیر، شہ رگِ پاکستان

کشمیر میں روز خون کی ہولی کھیلی جاتی ہے-فوٹو: فائل

تحریر:کیپٹن (ر) عمر فاروق
اٹوٹ انگ اور شہ رگ کے القابات سے مزین رگ جاں کشمیر، جس کی 3 نسلیں پچھلے 77 سال میں آزادی اور الحاق پاکستان کے سپنوں کو لے کر امر ہوگئیں۔ وادی چنار کے نوجوان شہادت کی منزل سے ہمکنار ہوتے ہوئے آزادی کی داستانیں 30 سال سے رقم کر رہے ہیں۔ کاشر دیش کی مستورات اپنی عظمتوں کی قربانیاں پیش کرکے ہماری بے حسی اور عالم اسلام اور عالمی ضمیر کی بے حسی کو جھنجھوڑ رہی ہیں۔ کشمیر کے عظیم مسلم رہنماؤں نے سبز ہلالی پرچم میں لپٹ کر خالق حقیقی سے ملاقات اور ابدی سفر پر روانگی کو ترجیح دی۔سری نگر سے لے کر کپواڑہ، گاندر بل، جموں سب کشمیریوں کے تن من دھن اور قلب کی پکار پاکستان، منزل و مقصد و مدعا پاکستان، شاہ ہمدان کے پیروکار اس پاکستان پر اپنا سب کچھ نچھاور کرنے کو بے تاب۔ڈوگرہ راج، برہمن راج، نہرو راج، گاندھی خاندان راج، مودی راج، سب کے سب ناکام و نامراد ہوئے اور کشمیری قوم کے پائے ثبات میں کوئی لغزش نہ آسکی۔سید علی گیلانی امر ہوگئے پاکستان کے خواب دیکھتے دیکھتے۔ کیا ہم اس دل و جان سے مر مٹنے والی قوم کشمیر کے سپنوں کو حقیقی رنگ دینے میں شب و روز مصروف عمل ہیں؟ یقیناً نہیں۔کشمیر میں خون کی ہولی کھیلی جاتی ہے، عصمت دری ہوتی ہے اور ہم نے اب اس کو معمولات زندگی سمجھ لیا ہے۔ہماری نالائق سفارت کاری سے تو سکھ بازی لے گئے، جنہوں نے خالصتان کی آواز کو یورپ اور کینیڈا تک پھیلا دیا اور متعدد ممالک میں خالصتان کےلیے نمائشی پولنگ کا انعقاد کروا دیا۔ یقیناً پاکستانی حکومت، پاکستانی سفارت کار اور یورپ اور امریکا میں مقیم پاکستانی اور کشمیری، کشمیر کاز اور بھارت کے مکروہ چہرے کو نمایاں کرنے میں اپنا بھرپور کردار ادا کرسکتے ہیں۔ کشمیر کی آزادی کےلیے تمام فورمز پر آواز اٹھائیں۔ یورپ میں کشمیر میڈیا ہاؤس اور کشمیر میگزین کا اجرا انتہائی ضروری ہے۔ یورپی یونین میں کشمیر کے موقف کو پیش کرنا ہمارا فریضہ ہے۔ تجارتی، سیاسی، مالی اور دفاعی مفادات کی خاطر کشمیر کے کاز کو پس پشت ہرگز نہیں ڈالنا ہے۔ کشمیر کے ننھے ننھے بچے ہماری راہ تک رہے ہیں۔ تمام کالجز اور یونیورسٹیوں میں کشمیر کی تحریک آزادی کو لازمی مضمون کے طور پر شامل کیا جائے۔پاکستان کے تمام سفارت خانوں میں کشمیر ڈیسک کا قیام عمل میں لایا جائے اور کشمیر کی تحریک آزادی کے متعلق نمائش، کانفرنس، مشاعرے اور سیمینارز منعقد کیے جائیں۔ کشمیر اور کشمیریوں کے جذبہ حریت کو ماند نہ پڑنے دیا جائے۔ وادی کشمیر کے پرندوں اور جھرنوں کی صدائیں بہشت سے کم نہیں۔ بہشت نما کشمیر کو کفر کے غلبے سے آزاد کروانا ہے۔ ہمارے ادیب، شاعر، کالم نگار، واعظین، مبلغین، علمائے کرام سب کے ساتھ کشمیر کی آواز کو اپنے اپنے انداز میں پیش کریں اور مقید اور مظلوم کشمیریوں کی ڈھارس بندھائیں۔حق پر مبنی جذبے قدرت کی عطا ہوتے ہیں اور جھوٹے اقتدار ان جذبوں کو پامال نہیں کرسکتے۔ چنار وادی کی حریت کا جذبہ قدرت کی آواز ہے اور قدرت کشمیریوں کی پشت پر کھڑی ہے اور جب چاہے گی سومناتی راج اپنے انجام کو پہنچ جائے گا۔ ہمارا کردار تو بس قدرت کی اس حمایت یافتہ حریت کشمیر کے جذبے کی شمع کو جلائے رکھنا ہے۔ آئیے مقبوضہ کشمیر کے معصوم شہریوں کی اخلاقی، سفارتی، سیاسی اور مالی امداد کریں اور خصوصاً آزادی کشمیر کے بیس کیمپ کو عظیم تر بنائیں اور قائد کے اٹوٹ انگ کے سپنے کو شرمندہ تعبیر کریں۔

کیپٹن (ر) عمر فاروق

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں