پختونوں کی معاشرتی زندگی پر جادو ٹونے کے اثرات

یاد ماضی عذاب ہے یارب چھین لے مجھ سے حافظہ میرا -فوٹو : فائل
رپوٹ: روخان یوسف زئی
کبھی کبھی فطرت کو انسان سے الگ کرنا اتنا مشکل ہو جاتا ہے کہ خود فطرت اور انسان کے مفہوم ایک ہو کر الجھن میں ڈال دیتے ہیں۔ یہ ایک لمبی بحث ہے کہ انسان فطرت کے تابع ہے یا فطرت انسان کی تابع ہے لیکن یہ بات ضرور ہے کہ شعوری طور پر انسان نے ہمیشہ فطرت سے آگے نکلنے اور فطرت کو شکست دینے کی کوشش کی ہے۔

مزید تفصیلات میں جانے سے قبل یہ بات تو طے کر لیں کہ فطرت انسان سے کہیں پہلے ظہور میں آچکی تھی۔ فطرت جس کے چار عناصر آگ، پانی ، ہوا اور مٹی اس کائنات میں اس دنیا کی تخلیق کے بعد زندگی کو نئے رنگ میں ڈالنے کے لیے مصروف عمل تھے، زندگی کی تخلیق ہوئی بھی تو ظاہر ہے کہ اس پر فطرت کے اثرات زیادہ تھے کہ فطرت میں ہی زندگی نے آنکھ کھولی یہ زندگی تھی۔

یہ انسان تھا پہلا انسان چوںکہ انسان پر اور انسان کی زندگی پر فطرت کا اثر تھا اور پھر فطرت میں مظاہر قدرت پہاڑ، درخت، اندھیرے ، اجالے ، ہوا ، مٹی ، پانی اور آگ ، یہ عناصر تھے جن کے باعث انسان حرکت کرتا رہا ضرورت کے تحت طلب ورسدکا آغاز ہوا چوںکہ انسان کی شعوری پختگی آئی نہیں تھی اس لئے یہ عناصر اس نے جس حالت میں قبول کئے وہ ناقص تھے، اندھیروں میں اجالوں کی تلاش اسے ایک اور دنیا میں لے گئی، جسے ارواح پرستی اور جادو کی دنیا کا نام دیا گیا ہے۔
اس دنیا میں انسان نے اپنی زندگی کے ہزاروں سال گزارے ہیں یہی وجہ ہے کہ وہ دور جسے پتھر کا زمانہ کہا جاتا ہے کے انسان کی معاشرتی مذہبی اور تہذیبی زندگی کی چند باقیات نظریات اور مظاہر آج کے اس سائنسی دور میں رہنے والے انسان کی زندگی میں بھی بہت نمایاں نظرآتے ہیں چاہے آج کا سائنسی اور علمی شعور رکھنے والا انسان چیخ چیخ کر کہے کہ

یاد ماضی عذاب ہے یارب
چھین لے مجھ سے حافظہ میرا

لیکن اپنے اس ماضی کی چند یادگاروں ، خیالوں، عقیدوں اور نظریات کے رنگ واثر کو اپنے لاشعور سے نکال باہر نہیں کر سکتا کیوںکہ صدیوں سے متوارث اور متواتر جو ایک اجتماعی حافظہ چلا آرہا ہے، اور جسے نفسیاتی اصطلاح میں کسی قوم کا اجتماعی لاشعور کہا جاتا ہے، اسے اتنی آسانی سے نہ تو بھلایا جا سکتا ہے اور نہ ہی اس کے وجود کو ختم کیا جا سکتا ہے ۔

اس کرہ ارض پر آج جتنی بھی ثقافتیںہمیں نظر آتی ہیں،ان میں کوئی بھی قوم اور معاشرہ اس بات کا دعوی نہیں کر سکتا کہ ان کی ثقافت خالص ہے اور کسی دوسری قوم کی آمیزش سے پاک ہے یا اس میں کسی دوسری نسل اور قوم کی کچھ اقدار رسوم ورواج اور روایات کا اثر یا مظاہرنہ پائے جاتے ہوں، دنیا میں جتنی بھی ثقافتیں پائی جاتی ہیںان کی شکل ورنگ وقت و حالات کے ساتھ ساتھ ہمیشہ تبدیل ہوتے رہتے ہیںاور بقول علامہ اقبال

سکو ن محال ہے قدرت کے کارخانے میں
ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں

انسان کی زندگی کی طرح اس کی نفسیات اور ثقافت بھی کبھی جامد اور غیر متحرک نہیں رہتی بل کہ جوں جوں وقت گزرتا جاتا ہے مادی حالات بدلتے ہیں، معاشرے میں نئی نئی ایجادات ہوتی ہیں اور ساتھ ساتھ دیگر نسلوں اور معاشروں سے سماجی، تجارتی اور تہذیبی رابطے اور رشتے استوار ہوتے ہیں، تو اس عمل میں ہر ایک نسل کی نفسیات اور ثقافت پر اپنے کچھ اثرات مرتب بھی کرتی ہے اور خود بھی اس ثقافت کی کچھ اقدار، نظریات اور روایات کو قبو ل کر لیتی ہے اور یہ ثقافتی تغیر دوسری اقوام کے ثقافتی عمل نفوذ سے واقع ہوتا ہے۔

عمل نفوذ مختلف معاشروں کے باہمی اتصال سے ظہور میں آتا ہے اور مختلف ثقافتوں کے مابین ثقافتی تراکیب کی منتقلی انجذاب، تحلیل اور اشاعت کا سبب بنتا ہے لیکن مختلف معاشروں کا یہ اتصال دوستانہ معاندانہ بلاواسطہ یا بالواسطہ کسی طرح کا بھی ہو سکتا ہے۔ ہمارا ملک پاکستان اور بالخصوص صوبہ خیبرپختون خوا کا علاقہ جو تاریخ کے مختلف ادوار میں مختلف قوموں اور ثقافتوں کا مسکن رہا ہے دراوڑ، ہن، کشن، ارین، بدھ مت، مغل، سکھ، انگریز اور ہندومت کے پیروکاروں نے یہاں صدیاں گزاری ہیں۔

ان کی طرز زندگی طرز معاشرت اور تہذیب کے بے شمار نمونے آج بھی یہاں موجود ہیں، ظاہر ہے کہ اس خطے میں آج لاکھوں ہزاروں سال قبل جو قوم بھی رہ چکی ہے اس نے اپنے مذہبی،نفسیاتی اور ثقافتی اثرات یہاں کے مقامی باشندوں پر چھوڑے ہیں چاہے وہ حملہ آور کی شکل میں یہاں آئی ہو یا تجارت اور مذہب کی اشاعت کی غرض سے۔ یہی وجہ ہے کہ خیبرپختون خوا کے باشندوں کی معاشرتی ذہنی،نفسیاتی اور ثقافتی زندگی میں ایسے سینکڑوں نمونے آئے اور چلے گئے جو سب اپنی اپنی جگہ پر ماہیت کے لحاظ سے مذکورہ اقوام کے نظریات اور ان کی تہذیبی باقیات سے تعلق رکھتے ہیں۔

ان باقیات میں بہت سارے طور طریقے آج بھی پختون نفسیات، ثقافت اور رسم رواج میں موجود نظرآتے ہیں، جن پرقدیم دور کے جادو، توہم پرستی اور اساطیرکا رنگ اور اثر نمایاں طور پر محسوس کیا جا سکتا ہے، مثلاً دانت کے درد کو رفع کرنے کے لیے زمین پر بیٹھ کرچند لکیریں کھینچ کر اور ان لکیروں پر چاقو یا چھری کی نوک گھمانا، اگر کسی کو سانپ، بچھو یا کاٹے تو جس جگہ کاٹا گیا ہو اس جگہ پر چاقو ، چھری یا لوہے کی کوئی دوسری چیزپھیرنا اور اسے سُن کرنا، آدھے سر کادرد ، یہاں پر ایک عام بیماری ہے۔

اس آدھے سر کے درد سے بچنے کے لیے یہاں ایک عام روایت یہ رہی ہے کہ خواتین ایک لمبی داستان شروع کر دیتی ہیں اور پھر اس داستان کے ختم ہوتے ہی بیمار اپنے سر کا درد بھول جاتا ہے، اسی طرح یہ بھی ہوتا ہے کہ آئینے کی روشنی سے بعض لوگ دوسروں کو آدھے سرکے درد میں مبتلا کر دیتے ہیں، جسے ایک طرح کا جادو سمجھا جاتا ہے، بعض دفعہ آندھی کے وقت گھر میں خواتین جھاڑوکوفوراً چارپائی کے پائے کے نیچے دبا دیتی ہیں۔

ان کا خیال ہے کہ اس طرح آندھی تھم جائے گی، ژالہ باری کے وقت ژالہ کی برف کے گولے کو چھری سے کاٹا جاتا ہے تاکہ ژالہ باری رک جائے، ناف کے درد سے بچنے کے لیے ناف میں انگلی رکھ کر دبائی جاتی ہے اور ناف کو اپنی جگہ پر لایا جاتا ہے، مویشیوں کی بیماریاں دور کرنے کے لیے اسے گرم لوہے سے داغا جاتا ہے بل کہ ہمارے ہاں تو اب جادو کے ذریعے انسانوں کے آپریشن کا بھی دعویٰ کیا جانے لگا ہے گردے کی پتھری ہو یا آج کل ہیپاٹائٹس کا مرض ارد گرد ایسے بے شمار لوگ پڑے ہیں جو امراض سے بچنے کے لیے جادو کے استعمال کا دعویٰ رکھتے ہیں۔

اخبارات ورسائل میں اس حوالہ سے باقاعدہ اشتہار چھپوائے جاتے ہیں۔ بات ہے عقیدوںکی، ہمارے تصورات میں چونکہ ان چیزوں پر باقاعدہ عقیدہ ہے اس لئے ہم ان چیزوں پر یقین رکھتے ہیں، جادو بھی ایک ایسی پراسرار طاقت ہے جس کا ذکر ہماری تاریخ ، ہماری تہذیب بل کہ ہمارے مذہب میں موجود ہے۔

دین اسلام میں اس کی ممانعت کی گئی ہے پھر بھی کئی لوگوں نے اسے باقاعدہ ایک کاروبار کی شکل دی۔ تعجب کی بات ہے کہ آج انسان جو اپنے آپ کو سائنسی شعور، تعلیم یافتہ، روشن خیال اور بہت بڑا عقل مند سمجھتا ہے لیکن آج تک وہ قدیم دور کے ان نظریات اور تصورات کو اپنے لاشعور سے باہر نکالنے میں کامیاب نہیں ہوا جو ارواح پرستی اور جادو مت کے دور سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہاں مختلف سرکاری اور غیر سرکاری تنظیمیں مختلف ناموں سے مختلف کاموں کے لیے کام کر رہی ہیں لیکن معاشرے میں علم و آگہی اور نئی سوچ اور فکر کو آگے بڑھانے کے لیے جس طرح کام کرنے کی ضرورت ہے۔

اس میں ہماری سیاسی ، سماجی اور ثقافتی تنظیمیں تاحال ناکام نظرآرہی ہیں ورنہ اس بات کا کیا جواز بنتا ہے کہ لوگوں کو جادو ٹونوں، ٹوٹکوں ، تعویذ اورگنڈوں کے ذریعے دیہاتوں اور شہروں میں آج بھی لوٹا جا رہا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمارے تعلیمی نصاب، مدرسوں، پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں ان پرانے قدیم اور فرسودہ رسم ور واج کی باقیات کو نکالنا چاہئے۔ آج بھی ہمارے ڈراموں فلموں خصوصاً بچوں کے لئے لکھے گئے ادب اور کہانیوں میں جادوگروں‘ کے کمالات آج بھی دھرائے جاتے ہیں اس رجحان کو ختم کرنا چاہئے اور دور جدید کے تقاضوں کے مطابق ہمیں اپنی نئی نسل کو ایک نئی ثقافتی سوچ اور فکر دینا چاہئے ۔

پتھر کے زمانوں کے غیر تہذیب ساختہ انسانوں کا عقیدہ تھا کہ مرنے والوں کی روحیں باقی رہتی ہیں وہ عالم خواب میں ان سے ملاقاتیں کرتا ہے اور اس دنیا میں بھی وہ اس کی امداد کو آتی رہتی ہیں بعد میں شمن مت کے پروہتوں نے دعویٰ کیا کہ مناسب منتر پڑھ کر وہ مرے ہوئے لوگوں کی روحوں سے رابطہ قائم کر سکتے ہیں۔

یہ روحیں دو گروہوں پر مشتمل سمجھی جاتی تھیں، نیک روحیں اپنے دوستوں کی مدد کے لئے حاجتیں پوری کرتی ہیں اور بدروحیں اس کے درپے آزار رہتی ہیں۔ جادو نیک روحوں کو اپنی اور اپنے دوستوں کی مدد کے لئے طلب کرنے اور بدروحوں کے وسیلے سے دشمنوں کو ایذاء پہنچانے کے جتن ہی کا دوسرا نام ہے لفظ’’جادو‘‘کا معنی ہے چارہ گری، تدبیر ، شعبدہ ، آثار، خلاف عادت کے لئے نیرنگ ( عربی، نیرنج) کا لفظ مستعمل ہے۔

طلسم کا معنی ہے حیرت میں ڈالنے والی بات جادو کے منتر کو تدبیر یا افسوں کہا جاتا ہے افسوں گر یا جادوگر کو عربی میں مغرم اور مدبر کا نام دیا گیا ہے بو علی سینا نے اپنی کتاب کنوزالمغرمین میں جادو کے ٹونے ٹوٹکے لکھے ہیں، جن سے بگڑے ہوئے کام بھی سنوارے جا سکتے ہیں اور دشمنوں کو ایذاء بھی پہنچائی جاسکتی ہے وہ منتروں کو غرام اور منتر پڑھنے والے کو مغرم کہتا ہے مسعود سعد سلمان ۔

ہرزماں فتنہ برسیاست تو
چوں مغرم ہمی کندافسوں

جوہری اور فیروزی آبادی نے حرکے معنی لکھے ہیں آسانی سے آمادہ بعمل کرنا یعنی روحوں کو کسی کا کام سنوارنے یا کسی کو ضرر پہنچانے پر آمادہ کرنا، طلسم کی طرح سحر میں بھی شعبدہ بازی کا مفہوم پایا جاتا ہے جیسا کہ سامری نے سونے کا بچھڑا اس ترکیب سے بنایا تھا کہ اس کے منہ سے ڈکارنے کی آواز نکلتی تھی یا جیسے مقنع نے جاہ نحشب سے مصنوعی چاند نکال کر دکھایا تھا یا جیسے مصر قدیم کے دیوتا کے بت پر سورج کی شعاعیں پڑنے سے اس کے منہ سے گنگنانے کی آواز یں نکلتی تھیں یا جیسے سومناتھ کے مندر میں سوم کا بت ہوا میں معلق کر دیا گیا تھا۔

ان تدبیروں اور شعبدوں سے پروہتوں نے عوام کے ذہنوں پر تسلط قائم کر رکھا تھا یہ وہ زمانہ تھا جب پروہت جادوگر، معالج اور شمن ایک ہی ذات میں جمع تھے انگریزی میں وائلڈ کی تحقیقی کے مطابق لفظMagic پہلوی زبان کے لفظ مجوس سے یادگار ہے جو ایرانی آتش پرستوں کے پروہت تھے۔

کائنات اور انسان

چوں کہ زراعت کو عورت نے ایجاد کیا اس لئے جادو کی رسموں کو بھی اسی نے نبھایا اور بڑی بڑی عظیم جادوگرنیاں بھی عورتیں ہی گزریں عورت کے ساتھ جادوگر کا یہ لفظ عورت کے حسن یا محبوب کے جلوؤں کے حوالے سے آج تک نتھی رہا ہے تاریخ اس امر کے سینکڑوں ثبوت مہیا کرتی ہے کہ ابتدائی معاشرے میں زراعت عورت نے ایجاد کی اوراسی بنیاد پر جادو کی رسومات میں بھی اس نے رہنما کردار ادا کیا ۔

یہ ثبوت بھی ملتے ہیں کہ جب تک مذہب نے آکر جادو کو کچل نہیں ڈالا تب تک ثقافتی رسومات کی ادائیگی سے لے کر قبائلی رسوم اور قوانین پر عملدرآمد کرانے کے لئے حکم عورت کا چلتا رہا جب مذہب آیا اور جادو کچلا گیا تو عورت کی حکم رانی کا بھی تختہ الٹ دیا گیا ورنہ حالت یہ ہوتی تھی کہ جادو گروں کے مقدس مقامات میں مردوں کو داخل ہونے کی اجازت ہی نہیں تھی تاہم بعض علاقوں کی نرم دل عورتوں نے مردوں کو جادو کے مقدس منتر سیکھنے کی اجازت بھی دے دی ۔(بشکریہ:ایکسپریس نیوز)

( پاکستانی تہذیب کا بحران۔ زبیررانا)

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں