انتخابات اور اقلیتی ووٹرز

2000 سے پہلے اقلیتی ووٹر جداگانہ انتخاب کے تحت حق رائے دہی استعمال کرتے تھے-فوٹو: فائل

تحریر:شیما صدیقی
2024 کے انتخابات کافی عرصے تک یاد رکھے جائیں گے۔ الیکشن کمیشن کے اعلانات کے باوجود بھی لوگ اس ہی شش و پنج میں تھے کہ 8 فروری کو انتخابی عمل مکمل ہوسکے گا یا صرف اعلانات ہی رہ جائیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ اس بار انتخابی ماحول میں ہلچل بہت کم ہے۔ انتخابات میں چند دن ہی رہ گئے ہیں لیکن وہ گہماگہمی نظر نہیں آرہی۔ سیاسی ماحول اور انتخابات پر بات تو ہورہی ہے لیکن امیدواروں کی انتخابی مہم پرجوش نہیں۔ سڑکوں، گلیوں اور نہ ہی کارنر میٹنگز میں سیاسی نعروں کی گونج ہے۔

اس سارے پس منظر میں جب ہم اقلیتی ووٹرز کی بات کریں تو اکثر اقلیتی ووٹرز میں انتخابات کے حوالے سے عدم دلچسپی نظر آرہی ہے۔ 2018 میں ملک کے 868 حلقوں میں پھیلے ان 4112761 اقلیتی ووٹروں کے کل 38 نمائندے ایوانوں تک پہنچے تھے، جن میں 24 ایم پی اے، 4 سینیٹر اور 10 ایم این اے شامل تھے۔

ہم نے اقلیتی گروہ کے کچھ ووٹر، ماہرین اور سیاسی جماعتوں کے نمائندوں سے بات کی اور سوال پوچھا کہ کیا وہ اس انتخابی عمل سے مطمئن ہیں؟ ساتھ ہی یہ بھی جاننے کی کوشش کی کہ اس نظام کو مزید کیسے بہتر کیا جاسکتا ہے۔ اکثریت کی رائے ہے کہ اقلیتوں کو دُہرے انتخاب کا حق حاصل ہونا چاہیے کیونکہ یہ سیاسی پارٹیوں کے نمائندے ہوتے ہیں انہیں عوام کے نمائندے نہیں کہا جاسکتا۔
دُہرے انتخاب کا حق کیا ہے؟

پاکستان کے ہر 18 سال کے شہری کا حق ہے کہ وہ انتخابات میں حصہ لے اور اپنی پسند کی پارٹی کو منتخب کرے تاکہ ان کے منتخب کردہ رہنما اسمبلی میں پہنچ کر ان کے حقوق کی پاسداری کریں۔

2000 سے پہلے اقلیتی ووٹر جداگانہ انتخاب کے تحت حق رائے دہی استعمال کرتے تھے، جس پر تنقید کی جاتی تھی کہ برابری کے شہری حقوق رکھتے ہوئے بھی پاکستانی اقلیتیں الگ کیوں ہیں؟ اس قانون کو پرویز مشرف دور میں ختم کرکے یکساں حق رائے دہی سے تبدیل کردیا گیا اور حکومت بنانے والی پارٹی کو یہ حق دیا گیا کہ اقلیتوں کی مخصوص سیٹوں پر وہ اقلیتی رہنما چن لیں۔ 2002 سے لے کر 2024 تک ہونے والے یہ پانچویں انتخابات ہیں جو یکساں رائے دہی کے ساتھ کیے جارہے ہیں۔ لیکن پاکستانی اقلیتیں مطالبہ کر رہی ہیں کہ انہیں دُہرا انتخاب کا حق دیا جائے، تاکہ وہ اپنے سیاسی رہنماوں کو خود چن سکیں۔

2024 کے انتخابات میں غیر مسلم اقلیتوں کی بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں 3/3 نمائندگیاں ہیں، جبکہ پنجاب میں 8 اور 9 اقلیتی ارکان سندھ اسمبلی میں بیٹھیں گے۔ 2013 میں ایک ترمیمی بل 106 پیش کیا گیا تھا، جس میں مذہبی اقلیتوں کو ان کی آبادی کے مطابق اسمبلی ارکان کی تعداد بڑھانے کی بات کی گئی تھی۔ جس میں کہا گیا کہ پنجاب، خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں ایک ایک سیٹ بڑھا کر 4 کردی جائیں اور سندھ میں سیٹیں بڑھا کر 13 کی جائیں۔ ساتھ ہی دُہرے انتخاب کے حق کی بھی بات کی گئی۔ یہ بل اسمبلی پیش کردیا گیا لیکن ابھی تک قانون کا حصہ نہیں بن سکا۔

دسمبر 2022 میں نادرا کی طرف سے تصدیق کی گئی کہ اقلیتی ووٹروں کی تعداد 3.63 ملین سے بڑھ کر 4.43 ملین ہوچکی ہے۔ رپورٹ کے مطابق 2013 کے مقابلے میں نئے اقلیتی ووٹرز کی تعداد میں 2.77 ملین اضافہ ہوا ہے۔ 2018 میں صوبائی، قومی اور سینیٹ کی کل مخصوص نشستوں پر 38 اقلیت کے منتخب افراد موجود تھے اور اگر اس میں براہ راست منتخب ہونے والے تین اور دو خواتین کو بھی شامل کرلیں اور دیگر سیٹوں کو بھی شامل کرلیا جائے تو 2018 کی اسمبلیوں میں کل 43 اقلیتی نمائندگی ہوجاتی ہے۔

برصغیر کی انتخابی تاریخ اٹھائیں تو ہمیں پتا چلتا ہے کہ انتخابی عمل میں عوام کی شمولیت کا عمل ایک دم نہیں بلکہ اس میں کئی دہائیاں لگیں۔ دُہرے انتخاب کا حق کوئی نئی بات نہیں۔ 1935 سے پہلے بھی ہندوستان کے ووٹر یہ حق استعمال کرتے تھے اور دہرے انتخاب کے حق کی وجہ سے ہی پاکستان وجود میں آیا۔

اقلیتوں کے حقوق کے حوالے سے پہچانے جانے والے اعظم معراج جنھوں نے پچھلے سال ’’پاکستان کی مذہبی اقلیتوں کے دہرے انتخاب کا جائزہ‘‘ کے عنوان سے ایک کتابچہ جاری کیا تھا، وہ کہتے ہیں کہ 1977 کے انتخابات میں بھی غٖیر مسلموں کو دہرے انتخاب کا حق موجود تھا۔ لیکن وہ حکومت ہی نہیں رہی کہ ان انتخابی تبدیلیوں کا فیض مقامی آبادی تک پہنچتا۔ اکثریت کے سامنے چھوٹی اقلیت کے حقوق کی پاسداری مشکل امر ہے، لیکن اگر ان کے اپنے چنے ہوئے نمائندے اسمبلیوں میں پہنچتے ہیں تو یقنناً اُن کی بات سنی جائے گی۔ اس لیے وہ چاہتے ہیں کہ اسمبلیوں کا حصہ بننے والے اقلیتی نمائندے عوام کے چنے ہوئے ہوں اور وہ دہرے ووٹ کے بغیر ممکن نہیں۔

اقلیتی ووٹر کیا کہتے ہیں؟

ہندو کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے 29 سالہ سمیر NA246 لیاری کے رہائشی ہیں۔ تعلیم یافتہ ہیں اور کافی متحرک نظر آتے ہیں۔ 2018 کے انتخابات میں ان کے حلقے نے سب کو حیران کردیا تھا کیونکہ یہاں سے پی ٹی آئی کے عبدالشکور شاد جیتے تھے، دوسرے نمبر پر ٹی ایل پی اور تیسرے نمبر پر بلاول بھٹو زرداری آئے تھے۔ یہ انتخابی نتائج لیاری کی تاریخ سے میل نہیں کھاتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ 2018 میں لیاری کے لوگوں نے دوسری پارٹیوں کو موقع دیا تھا کہ ان کے حلقے کے مسائل حل ہوں، لیاری کا ماحول بہتر ہو اور پہچان بدلے۔ سمیر 2018 کے انتخابات میں زیادہ پُرجوش تھے اور انھوں نے 2018 میں اپنا پہلا ووٹ ڈالا تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ لیاری کے لوگ بنیادی طور پر سیاسی شعور رکھتے ہیں اور لیاری میں تبدیلی کے خواہاں تھے۔ لیکن انہیں پی ٹی آئی سے بھی کچھ نہیں ملا۔ یہی وجہ ہے کہ 8 فروری کو ہونے والے انتخابات سے لاتعلقی محسوس کرتے ہیں۔ عدم دلچسپی کا یہ عالم ہے کہ انہیں اس بار اپنے حلقہ کا نمبر معلوم نہیں اور نہ ہی 2018 میں جیتنے والے امیدوار کا نام۔

19 سالہ جانی مہیشوری کا یہ پہلا انتخاب ہے۔ ان کا حلقہ NA222 بدین تلہار ہے۔ یہاں پاکستان پیپلز پارٹی اور گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کے درمیان مقابلہ ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ پی پی پی نے ان کے علاقے میں کام کیے ہیں۔ وہ کراچی میں کام کرتے ہیں لیکن ووٹ ڈالنے اپنے علاقے میں جائیں گے۔ ان کی کمیونٹی کی بڑی تعداد بدین میں آباد ہے۔

احمدی کمیونٹی سے تعلق رکھنے والی 52 سالہ نسیمہ احمد سے جب ہم نے پوچھا کہ انھوں نے انتخاب میں کب ووٹ ڈالا تھا؟ انھوں نے کہا کہ میں نے آخری بار ووٹ کب ڈالا یہ یاد نہیں، شاید 20/25 سال پہلے ڈالا ہو۔ اتنی پرانی بات ہے کہ مجھے صحیح سے یاد نہیں مگر میرے بچوں نے ایک بار بھی ووٹ نہیں ڈالا۔ تنظیم کی طرف سے جب بائیکاٹ آجاتا ہے تو ہم انتخابات میں حصہ نہیں لیتے۔ کراچی میں کیوں کہ ہماری آبادی کم ہے اس وجہ سے بھی انتخاب والے دن کوئی گہماگہمی نہیں ہوتی، اپنے گھروں میں رہتے ہیں۔

فیصل آباد سے تعلق رکھنے والے عامر امجد کا کہنا ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ شفاف انتخابات کےلیے ضروری ہے کہ غیر مسلموں کو دہرے انتخاب کا حق حاصل ہو۔ ان کا حلقہ NA 108 ہے۔ 2018 میں پی ٹی آئی کے فرخ حبیب نے یہ سیٹ جیتی تھی، جن کی کارکردگی سے وہ زیادہ خوش نہیں۔ فیصل آباد ایک صنعتی شہر ہے لہٰذا یہاں ابھی بہت سے کام ہونا باقی ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ کرسچن کمیونٹی کا اچھا خاصا ووٹ بینک ہے اور تمام سیاسی جماعتیں ہمارے ووٹ بینک کو مانتی ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ جس طرح پاکستان کی آبادی میں اضافے کے بعد اسمبلی کی سیٹیں بڑھائی گئی ہیں، اسی طرح اقلیتوں کے نمبر بھی بڑھائے جائیں۔ وہ دہرے انتخاب کے حق کی تائید کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ کمیونٹی کے رہنما کو چننے کا حق ہونا چاہیے۔ یہ نہ ہو کہ بڑی بڑی سیاسی جماعتوں کو فنڈ دے کر سیٹ خرید لی جائے اور اس چکر میں وہ لوگ بھی کمیونٹی کی سیٹ پر آجاتے ہیں جنہیں کمیونٹی جانتی تک نہیں۔ یہ درست عمل نہیں ہے، لہٰذا اگر دہرے انتخاب کا حق اقلیتوں کو مل جائے تو ان کی آواز زیادہ سنی جائے گی اور عوامی سطح پر ان کا زیادہ اثر ہوگا۔

ایاز موریس کراچی کے رہائشی ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ عوامی سطح پر لوگ خود اپنے نمایندہ چننا چاہتے ہیں اور سیاسی جماعتوں کے کندھوں پر چڑھ کر ایوانوں تک پہنچنے والے رہنماؤں کو اپنا نمائندہ تسلیم نہیں کرتے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ لوگ عوامی تعلق کو اہمیت نہیں دیتے اور براہ راست ان کےلیے آواز نہیں اٹھا پاتے، بلکہ جہاں پارٹی پالیسی کی بات آتی ہے وہاں چپ ہوجاتے ہیں۔

اقلتیوں کے نمائندے کیا کہتے ہیں؟

توشنا پٹیل، کراچی میں پارسی کمیونٹی کی نمائندگی کرتی ہیں۔ ان کی وجہ شہرت کار ریسنگ ہے۔ توشنا پٹیل کا کہنا ہے کہ پرویز مشرف کے دور میں کوئٹہ سے ان کی خالہ روشن خورشید بروچہ کو نمائندگی ملی تھی لیکن اس کے بعد کوئی پارسی اسمبلی تک نہیں پہنچا۔ پارسی پاکستان کی سب سے چھوٹا اقلیتی گروہ ضرور ہیں لیکن ہم نے کراچی کو بنایا ہے۔ کراچی کی تاریخ ہمارے حوالوں کے بغیر مکمل نہیں ہوسکتی۔ اس وقت پاکستان میں تقریباً 800 پارسی افراد بستے ہیں۔ 2 کوئٹہ میں 14 اسلام آباد، چند ملتان میں ہیں، باقی سارے خاندان تو کراچی میں ہیں۔ توشنا سمجھتی ہیں کہ انہیں اپنی نمائندگی چننے کا پورا حق حاصل ہونا چاہیے۔ ہم سندھ کے شہری ہیں، ہم نے شہر کراچی بنایا، اب ہماری کمیونٹی کے نام پر چند سڑکیں رہ گئی ہیں اور کراچی کے قدیم علاقوں میں بس عمارتوں کے نام۔ ان کا مطالبہ ہے کہ کم از کم سندھ اسمبلی میں پارسی کمیونٹی کی سیٹ ہونی چاہیے۔

2018 میں منگلا شرما MQM –P کی جانب سے خواتین کی مخصوص سیٹ پر سندھ اسمبلی کی رکن بنیں۔ وہ سمجھتی ہیں کہ اقلیتی آبادی کی نمائندگی اس طرح نہیں ہوپاتی جیسے کہ ان کا حق ہے۔ ان کو واضح نمائندگی ملنی چاہیے۔ یہ ہی نہیں بلکہ 10 مخصوص سیٹوں پر سب مرد آجاتے ہیں جبکہ کسی خاتون کو بالکل نمائندگی نہیں ملتی۔ خواتین کی مخصوص سیٹوں کی طرح اقلیتی سیٹوں پر بھی خواتین کی نمائندگی ہونی چاہیے تاکہ اقلیتوں میں موجود خواتین ووٹروں کو ان کا چہرہ مل سکے۔ ان کی بات کی تائید اس امر سے بھی ہوتی ہے کہ الیکشن کمیشن کی جاری کردہ قومی اسمبلی کی 31 مخصوص سیٹوں کےلیے کل 150 اقلیتی نمائندوں نے اپنے کاغذات جمع کرائے ہیں، جن میں سے کل 15 خواتین نے کاغذات جمع کرائے ہیں۔ خواتین نمائندگی میں بلوچستان اور خیبرپختونخوا سب سے آگے ہیں اور 5 خواتین نمائندوں کے نام سامنے آئے ہیں۔ اس ڈیٹا میں ایک اور بات نمایاں تھی کہ سب سے زیادہ عمر رسیدہ فرد کی عمر 80 سال ہے اور سب سے کم عمر امیدوار کی عمر 36 سال ہے۔

نوید انتھونی دُہرے انتخاب کی مخالفت کرتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ تمام عوام کو ایک ہی نظام کے تحت چلایا جائے۔ تمام شہری برابری کی بنیاد پر حکومت بنانے کے اہل ہیں۔ اگر اقلیتوں کو الگ جداگانہ انتخاب کا حق دے کر انہیں باقی پاکستانیوں سے الگ کرکے مین اسٹریم سیاست سے الگ نہیں کرنا چاہے۔ اور نہ ہی انہیں کشمیروں کی طرح اسپیشل اسٹیٹس دے کر پاکستان سے الگ کرنا مناسب ہوگا۔ وہ پاکستان کے شہری ہیں، جو اس ہی مٹی میں پیدا ہوئے اور یہاں ہی ان کی جڑیں ہیں۔ نئے تجربات کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ 2000 سے یہ نظام چل رہا ہے اسے مزید مضبوط کرنا چاہیے۔ اس کی کمزوریوں کو دور کرنے کی ضرورت سمجھ میں آتی ہے۔ ان کی سیٹیں بڑھائی جائیں، سیاسی جماعتیں خواتین کی سیٹیں بھی بڑھائیں۔ یونین کونسل ہوں یا شہری، یہاں تک کہ صوبائی اسمبلیاں، مذہبی اقلیتوں کی مقامی سطح پر سیاسی شمولیت ضروری ہے۔ جنرل نشستوں پر بھی ان اقلیتوں کو آنا چاہیے۔

انسانی حقوق سے منسلک زہرہ یوسف کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ اگر پاکستانی اقلیتیں سمجھتی ہیں کہ انہیں دہرے ووٹ کا حق ملنا چاہیے تو یقیناً انہیں اس کا حق ملنا چاہیے۔ لیکن اب بہت دیر ہوچکی ہے۔ ان کے رہنماؤں کو اسے قانونی شکل دینے کےلیے پہلے سے لابنگ کرنے کی ضرورت تھی۔ یقیناً یہ ایک سیاسی مسئلہ ہے، اس پر بات ہونی چاہیے۔ سیاسی جماعتوں کو اس پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اور عوامی سطح پر بھی پبلک پالیسی کی ضرورت ہے۔
شیما صدیقی
(بشکریہ:ایکسپریس نیوز)

50% LikesVS
50% Dislikes

انتخابات اور اقلیتی ووٹرز” ایک تبصرہ

اپنا تبصرہ بھیجیں