آئی ایم ایف یا گلے کی ہڈی؟

تحریر:ذکیہ نیئر زکی
کابینہ میں نت نئے وزیروں مشیروں کی بھرتیوں کا عمل رکنے نہیں پارہا، اتحادیوں پر حکومتی خرچے اور اس ملک میں غریب کی بے بسی کے چرچے سبھی جانتے ہیں۔ ڈالر کی اونچی اڑان سفید پوشوں کا بھرم بھی ساتھ اڑا لے گئی، رہی سہی کسر آٹھ بجے مارکیٹیں بند کرنے کے فیصلے نے پوری کردی ہے۔
چین اور سعودیہ سے آس لگائے بیٹھی حکومت دلاسے دے رہی ہے کہ قرضے ملنے پر معیشیت کی سانس میں سانس آئے گی لیکن اسٹیٹ بینک کے اعداد و شمار کوئی اور ہی قصہ سنارہے ہیں۔ دوست ملک قرضہ دے بھی دیں تو جو ادائیگیاں پہلے قرض داروں کو کرنی ہیں ان کا کیا بنے گا؟
آئی ایم ایف ایک آخری سہارا ہے لیکن اس کی شرائط ماننا حکومتی کارکردگی کے گلے سڑے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوسکتی ہے۔ اسی خوف سے تو وزیر خزانہ نے فنڈ کی طرف لپکتے قدم روک رکھے ہیں۔ مہنگا پٹرول، مہنگی بجلی، اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں اضافہ، یہ اقدامات معیشت کا پہیہ تو شاید چلا لیں لیکن عوام اس پہیے کے گھن چکر میں پستی ہی چلی جائے گی۔ پھر کیا ہوگا؟ یہیں ناں کہ اگلی بار ایک نہیں، دو نہیں، بلکہ ساری کی ساری حکومتی جماعتوں کو ہی عوام کی طرف سے لال بتی دیکھنی پڑے گی۔
آئی ایم ایف سے بھی تو حکومت در حکومت ہمارا رشتہ چلا آرہا ہے۔ یہ اب ایسی ہڈی بن چکی ہے کہ اگر نگلتے ہیں تو بھی سانسیں اکھڑتی ہیں، اگلتے ہیں تب بھی گزارا ممکن نہیں۔ لگتا یہی ہے کہ اس بار بھی اس کی کڑی شرائط کی دھوپ میں ہی ہمارا معاشی ڈھانچہ کھڑا کرنے کی کوشش کی جائے گی۔
پاکستان تحریک انصاف کی غلط معاشی پالیسیوں، کورونا وبا کی وجہ سے بگڑتے حالات اور عوام کی بہتری کےلیے کچھ کر گزرنے کے بجائے انتقامی کارروائیوں میں سر دھنتی حکومت نے پاکستانی معیشت کی کھال ادھیڑ کر رکھ دی۔ مہنگائی کا نعرہ لگا کر آنے والی اس مخلوط حکومت نے بھی عوام کو سوائے مایوسی کے کچھ نہ دیا۔ اب تو حالات بتا رہے ہیں کہ پیسہ نہ آیا تو ملک دیوالیہ ہوسکتا ہے۔ جبکہ عوام کےلیے دو وقت کی روٹی کا حصول آزمائش بن چکا ہے۔
سفید پوش کےلیے اس دور میں گھر چلانا مشکل سے مشکل تر ہوچکا ہے۔ آمدنی بڑھنے کا نام نہیں لے رہی اور اخراجات ہیں کہ قابو میں ہی نہیں آرہے۔ آمدنی اور اخراجات کے عدم توازن نے لوگوں کی زندگی اجیرن کردی ہے۔ اندازہ اس بات سے لگائیے کہ آٹا بنیادی ضرورت ہے لیکن حکومت کی غلط درآمدی پالیسی کی وجہ سے اب اس کا بحران بھی سر پر آن کھڑا ہوا ہے۔ ہم نے روس یوکرین تنازعے کے دنوں میں مہنگی گندم خرید کر گوداموں میں پڑی اپنی گندم کے بھی ریٹس دُگنے کروا دیے۔ جس کا فائدہ ذخیرہ اندوزوں نے اٹھایا۔
بلوچستان جیسے بڑے صوبے میں گندم کے سرکاری ذخائر ختم ہوگئے ہیں، جس کی وجہ سے 20 کلو آٹے کا تھیلا 23 سو روپے میں فروخت ہورہا ہے۔ لوگ سارا سارا دن لائنوں میں لگ کر چند کلو آٹا خرید پاتے ہیں۔ گندم نایاب تو روٹی بھی مہنگی ہوگئی۔ پندرہ روپے کی روٹی اب کہیں بیس تو کہیں پچیس روپے میں مل رہی ہے۔ جبکہ پورے پاکستان میں آٹے کے نرخ سن کر آسمان جیسے سر پر آن گرتا ہے۔ پنجاب کے کئی شہروں میں تو قیمت 150 سے 160 روپے کلو تک پہنچ چکی ہے جبکہ پرائس کنٹرول کمیٹیاں اگلی پچھلی نیندیں پوری کرنے میں مصروف ہیں۔
ایک وقت تھا جب یوٹیلٹی اسٹورز کو غریب اور سفید پوش اشیائے خورونوش کی خریداری کےلیے نعمت مانتے تھے لیکن اب حالات وہاں بھی پہلے جیسے نہیں رہے۔ نام حکومتی سبسڈی کا ہے لیکن قیمتیں وہاں بھی آئے روز بڑھائی جارہی ہیں۔ نئے حکم نامے کے مطابق یوٹیلٹی اسٹور پر 20 کلو آٹے کا تھیلا 1296 روپے اور درجہ دوم کا گھی 3 سو روپے کے بجائے 375 میں فروخت ہوگا اور چینی کی قیمت 75 روپے فی کلو کے بجائے 89 روپے کلو ہوگی۔(بشکریہ ایکسپریس نیوز)

ذکیہ نیئر زکی

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں