جنون اور عشق سے ملتی ہے آزادی

لاکھوں قربانیوں کے بعد یہ عظیم وطن حاصل ہوا،-فوٹو: فائل

تحریر:محمد مشتاق ایم اے

’’السلام علیکم! پاکستان براڈ کاسٹنگ سروس۔ ہم لاہور سے بول رہے ہیں۔ تیرہ اور چودہ اگست سن سینتالیس عیسوی کی درمیانی رات۔ بارہ بجے ہیں۔ طلوعِ صبحِ آزادی‘‘۔

یہ تھا وہ اعلان یا پیغام جو اردو زبان میں مصطفیٰ علی ہمدانی کی زبان سے سب سے پہلے ادا ہوا اور پھر آناً فاناً چہار دانگ عالم پھیل گیا اور دو قومی نظریے کی سچائی پر مہر ثبت ہوگئی۔ ہندوستان کے مسلمانوں کو اپنے اس خواب کی تعبیر مل گئی جس کےلیے انہوں نے لازوال قربانیوں کی وہ داستانیں رقم کیں جن کی مثال تاریخ میں ملنا مشکل ہے۔

آج سے 76 سال پہلے 27 رمضان 1366 ہجری بروز جمعرات پاکستان کا قیام عمل میں آیا اور آج 14 اگست 2023ء ہے، ہم اپنے ملک کی آزادی کی 76 ویں سالگرہ ملی جوش و جذبے سے منا رہے ہیں۔ ہم آزادی منانے والوں میں سے اکثریت اس عوام کی ہے جو آزادی کے وقت پیدا بھی نہیں ہوئے تھے۔ لہٰذا ان کی تحریک پاکستان سے وابستگی صرف کتابوں کی حد تک ہی ہے اور ہم لوگ حقیقت میں ان حالات و واقعات کا حصہ نہیں تھے، اس لیے بس ایسے واقعات کو سرسری نظر دوڑا کر بھول جاتے ہیں۔ لیکن آج بھی اگر ایسے بزرگ حیات ہیں جنہوں نے پاکستان بنتے دیکھا تو وہ ان واقعات کی تفصیل بتا سکتے ہیں۔

اگرچہ آج خوشی کا دن ہے کہ ہم نے اپنے بزرگوں کی لازوال قربانیوں اور قائد محمد علی جناح کی ولولہ انگیز اور بے لوث قیادت میں بیک وقت انگریزوں اور ہندوؤں کی غلامی سے نجات حاصل کی اور اپنے لیے ایک علیحدہ آزاد وطن حاصل کیا اور یہ آزادی ہمیں قائداعظم کی انگریزوں، ہندوؤں اور اپنے اندر چھپے ہوئے دشمنوں کے خلاف چومکھی لڑائی میں فتح کی وجہ سے نصیب ہوئی۔

آج ہم گھروں، دکانوں اور گاڑیوں پر چاند ستارے والا قومی پرچم لہرا کر اس بات کا اعلان کرتے ہیں کہ ہم آزاد ملک کی آزاد قوم ہیں۔ پورے ملک میں سرکاری تعطیل ہوتی ہے اور ہر شہر، گاؤں اور تعلیمی اداروں میں پاکستان کے حوالے سے تقریبات کا انعقاد ہوتا ہے۔ الیکٹرانک میڈیا اس حوالے ٹاک شوز اور ڈرامے پیش کرتا ہے۔ قریہ قریہ، گاؤں گاؤں اور شہر شہر ملی نغمے ہمارے لیے وطن سے محبت کا جذبہ ابھارتے ہیں۔ صبح فجر کی نماز میں ملک کی سلامتی اور ترقی کےلیے خصوصی دعاؤں کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ صبح سویرے وفاقی دارالحکومت میں 31 جب کہ صوبائی دارالحکومتوں میں 21 توپوں کی سلامی دی جاتی ہے۔ قومی پرچم لہرانے کی تقریبات منعقد ہوتی ہیں۔ الغرض طلوع فجر سے رات گئے تک ہر طرف ایک جذبہ اور ولولہ نظر آتا ہے۔ عید کا سا ماحول بن جاتا ہے۔ ایسے لگتا ہے جیسے ہم شروع سے ہی ایسے ہیں، گویا ساری قوم موتیوں کی طرح پیار و محبت کی ایک مالا میں پرو دی گئی ہو۔ یہ سارا ماحول 14 اگست کو چھایا رہتا ہے۔

لیکن ان ساری تقریبات، جشن، میلوں ٹھیلوں اور ملی نغموں کے دوران کبھی ہم نے یہ بھی سوچا ہے کہ کیا یہ سب کچھ کرنے سے قیام پاکستان کا مقصد ہم نے پورا کردیا؟ کیا دو قومی نظریہ جس کی بنیاد پر ہم نے الگ ملک بنایا اس کی اساس انہی چیزوں پر ہے؟ کیا ’’پاکستان کا مطلب کیا، لا الہ اللہ‘‘ کا محض نعرہ بلند کرنے سے ہمیں وہ سارے فوائد حاصل ہوجاتے ہیں جن کی خاطر ہمارے لاکھوں بزرگوں نے اپنے مال، عزت اور جان کی قربانیاں دیں اور بزرگوں نے اپنے بچے، بچوں نے اپنے بزرگ، بہنوں نے اپنے بھائی، نوجوانوں نے اپنی جوانیاں اور ماؤں، بیٹیوں اور بہوؤں نے اپنی عزت اپنے وطن کےلیے قربان کی تھیں؟ کیا ہم ’’عشق اور جنون سے ملتی ہے آزادی‘‘ کی روح کو سمجھتے ہیں؟ نہیں، بلکہ ہرگز نہیں۔

اگر ہم یہ سب جانتے، سمجھتے اور مانتے تو یہ ساری خوشیاں منانے کے ساتھ وہ سارے کام بھی کرتے جن کےلیے ہم نے یہ ملک حاصل کیا تھا اور اگر ہم ایسا کرتے تو آج ہمارا ملک دنیا کے نقشے پر گنتی کا محض ایک ملک نہ ہوتا بلکہ اس کا ایک اپنا الگ مقام ہوتا۔ دنیا ہماری عزت کرتی اور بڑے فیصلے کرتے ہوئے ہم سے بھی پوچھتی کہ آپ کی کیا رائے ہے؟ لیکن وائے افسوس کہ آج دنیا ہم سے ہماری رائے نہیں پوچھتی بلکہ فیصلہ کرکے ہمیں بتا دیتی ہے کہ یہ ہمارا فیصلہ ہے، آپ نے بس اس پر عمل کرنا ہے اور ہم میں انکار کی جرأت نہیں ہوتی ہے۔ ہمارے بعد آزاد ہونے والے آج اقوام متحدہ میں ویٹو پاور لے کر بیٹھے ہیں کیونکہ انہوں نے اپنی معیشت کو اس درجہ ترقی دی کہ ان کو شامل کیے بغیر دنیا کے پاس کوئی اور چارہ نہیں۔

ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ ہمارا ملک دنیا کا واحد ملک ہے جو کسی نظریے پر وجود میں آیا ہے اور وہ نظریہ کیا ہے، وہ نظریہ ہے ’’لا الہ الا اللہ‘‘ اور اگر ہم اس نظریے کو محض دستاویزات سے نکال کی عملی شکل دینے کی سعی کریں تو اس صورت میں ہمارا معاشرہ تبدیل ہوگا۔ اگر معاشرے میں تبدیلی محض کھوکھلے نعروں سے آنی ہوتی تو نہ جانے کب سے وہ تبدیلی آگئی ہوتی۔ لیکن ہم سب یہ بات بخوبی جانتے ہیں کہ ملک کی ساری صورتحال دیکھ کر لگتا ہے ہم نے ابھی تک درست سمت پہلا قدم بھی نہیں اٹھایا بلکہ غلط سمت میں بھی اس قدر دور نکل گئے ہیں کہ درست سمت کے آغاز تک آنے کےلیے بھی کافی محنت درکار ہے۔ یہاں کسی نے ملک کو ترکی اور پیرس بنانے کی بات کی تو کسی نے ریاست مدینہ کا خوش کن نعرہ لگایا لیکن عوام کے ہاتھ کچھ نہ آیا۔

آج 76 سال بعد بھی ہم قائداعظم کے بعد کسی مسیحا کی تلاش میں ہیں، جو آئے اور ہمارے دکھوں پر سکون کا مرہم رکھے، کوئی ایسا آئے جو ہمارے ساتھ جیے اور ہمارے ساتھ مرے، ہم کھائیں تو وہ کھائے ہم پیاسے ہوں تو وہ بھی پیاسا ہو، اس کا گھر روشن ہو تو ہمارا گھر بھی روشن ہو، عوام کے دکھ کچھ ایسے بھی لادوا نہیں لیکن شرط ایمانداری، خلوص اور حب الوطنی کی ہے۔ اب حکمرانوں کی دیکھا دیکھی نیچے تک سارے ادارے اور ملازمین اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ کوئی بندہ سوچ بھی نہیں سکتا کہ اس کا کوئی کام بغیر کسی ریفرنس یا پھر پیسے کے بغیر ہوسکتا ہے۔ کسی بھی معاملے میں دنیا کی رینکنگ میں اپنا نمبر دیکھ لیجیے اور خود ہی فیصلہ کرلیجیے کہ ہم کس مقام پر ہیں۔

ملک میں قانون ڈھیروں ڈھیر بنے ہوئے ہیں لیکن ہمارا قانون ایسا جال ہے جس میں سے بااثر شخص آرام سے نکل جاتا ہے لیکن ایک ریڑھی والا اس میں ایسے پھنس جاتا ہے جیسے سارے ملک میں ہونے والی کرپشن اسی نے کی ہے۔ عام آدمی عدالتی کٹہرے میں آجائے تو ساری زندگی اس کی عدالتوں کے چکر میں کٹتی ہے۔ آج کل اسکولوں میں طلبا امتحانات میں 100 فیصد نمبر لے رہے ہیں، لکھنا انگلش آتی ہے نہ اردو۔ پاکستان کے حوالے سے ان کی معلومات بہت واجبی سی ہیں۔ کئی دفعہ ٹی وی میں سوال جواب والے پروگراموں میں نئی نسل کی کارکردگی دیکھ کر سر شرم سے جھک گیا کہ کئی تو بڑے بنیادی اور اہم سوالوں کے بھی سارے جواب غلط دے رہے تھے۔

ملک میں ہونے والے احتساب کی حالت ہمارے سامنے ہے کہ یہاں احتساب صرف اپوزیشن کے لوگوں کا ہوتا ہے، چاہے جو بھی حکومت ہو وہ ایسا ہی کرتی ہے پھر جب حکومتی افراد کسی وقت اپوزیشن میں ہوتے ہیں تو ان کا احتساب شروع ہوجاتا ہے۔ ملک کا نام تو ہم نے اسلامی جمہوریہ پاکستان رکھ لیا لیکن بعد کے سارے اقدامات ہمیں یہ باور کرواتے ہیں کہ ہمارا ملک کچھ بھی ہوسکتا ہے لیکن نہ اسلامی ہے اور نہ ہی جمہوری۔

آئیے ہم سب اپنے ملک کو پہچانیں۔ جس مقصد اور نظریے کی بنیاد پر یہ بنا تھا اس کی روح کو پہچانیں اور اپنے قول و فعل سے دنیا پر یہ ثابت کریں کہ ہم مسلمان ہیں اور ہمارا ملک اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے۔ ہمیں یہ سب ثابت کرنے کےلیے اونچی آواز میں نعرے لگانے کی ضرورت نہیں بلکہ ہمارا طرز زندگی اور قوانین اس بات کے گواہ ہوں گے کہ جو ہم کہہ رہے ہیں وہ سچ ہے۔ اگر ہم پہلے کی طرح صرف نعروں اور تقریبات کے ذریعے ہی 23 اگست، 23 مارچ مناتے رہے تو یاد رکھیے کہ ہر آنے والا دن ہماری بدقسمتی میں اٖضافہ کرتا جائے گا اور دنیا میں ہمارا ہر شعبہ میں درجہ، جو پہلے ہی شرمناک حد تک کم ہے وہ اور بھی کم ہوتا جائے گا۔

آج بھی ہم سارے اگر کمر کس لیں اور تہیہ کرلیں کہ ہم نے اپنے ملک کو اوج ثریا تک لے کر جانا ہے تو یہ مشکل ضرور ہے مگر ناممکن ہرگز نہیں، شرط صرف صاف نیت، محنت، اخلاص اور حب الوطنی کی ہے۔ ہم سب نے بس اپنا کام ٹھیک کرنا ہے۔ اپنے مفاد کو دوسروں کے مفاد پر اور خاص کر ملک کے مفاد پر ترجیح نہیں دینی۔ جو کام ہمارے ذمے ہے وہ ایمانداری سے کرنا ہے، دوسرے کے حقوق انہیں دینے ہیں اور اپنے فرائض ادا کرنے ہیں اور ملک کی ترقی میں حصہ ڈالنا ہے۔ پھر نعرے بھی اچھے لگیں گے اور تقریبات کا رنگ ڈھنگ بھی اور ہوگا۔(بشکریہ ایکسپریس نیوز)

محمد مشتاق ایم اے

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں