عام آدمی کی معیشت کا پہیہ جام

مہنگائی نے عام آدمی کی زندگی مشکل ترین بنادی ہے-فوٹو: فا ئل

تحریر:محمد مشتاق ایم اے

کوئی جتنی مرضی اپنی افلاطونی جھاڑ لے اس بات میں کوئی شک نہیں کہ عام آدمی کی معیشت کا پہیہ بجلی، گیس اور پٹرول کے گرد ہی گھوم رہا ہے۔ آج آپ کسی مارکیٹ میں چلے جائیں، کسی چائے والے کھوکھے کے پاس کھڑے ہوکر اس طرف کان لگائیں یا کسی بھی گھر میں اپنے عزیز و رشتے داروں یا محلے داروں کو ملنے چلے جائیں۔ ہر گھر، دکان اور محلے میں صرف اور صرف ایک ہی موضوع زیر بحث ہے کہ ہم بجلی اور گیس کا بل دیں یا کھانا کھائیں؟ ہم موٹر سائیکل میں پٹرول بھروائیں یا بچوں کے اسکول کی فیس ادا کریں؟ الغرض ان تین چیزوں نے آج کل عام آدمی کی معیشت کا پہیہ جام کرکے رکھ دیا۔عام غریب آدمی کو چھوڑیے، اچھے خاصے متوسط طبقے کی یہ بل دیکھ کر چیخیں نکل گئی ہیں اور اسے یہ سمجھ میں نہیں آرہا کہ اپنا شمار معیشت کے حوالے سے درمیانے طبقے میں کرے بھی تو کیسے کرے، کیوں کہ اس کی حالت بھی ایک عام غریب آدمی کی سطح پر پہنچ گئی ہے۔عام آدمی کی اس پریشانی میں غصے کا عنصر بھی شامل ہوچکا ہے جس میں ہر آئے روز اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے اور ان دونوں عناصر یعنی پریشانی اور غصے کی الگ الگ وجوہ ہیں جن کو سمجھنے کےلیے کسی مافوق الفطرت ذہن یا فارمولے کی ضرورت نہیں بلکہ اس کےلیے صرف آنکھیں کھلی اور سینے میں دل کا دھڑکنا ہی کافی ہے۔ یہ بات اب نوشتہ دیوار ہے کہ ملک میں ایک ہی آئین کے تحت زندگی گزارنے والوں میں یہاں مصنوعی فارمولوں سے زمین و آسمان کا فرق پیدا کرکے رکھ دیا گیا ہے۔ایک طبقے کی پوری آمدن بھی محض اس کے بجلی اور گیس کے بل ادا کرنے کےلیے ناکافی ہے جب کہ ایک طبقہ یہ ساری سہولتیں مفت میں استعمال کرنے کے سارے حقوق اپنے نام کیے بیٹھا ہے۔ آبادی کی اکثریت کے پاس اپنے اور بیوی بچوں کا علاج کرانے کے پیسے نہیں۔ جب کہ اس ملک کی اقلیت ملک کے بڑے ہسپتالوں کے علاوہ بیرون ملک بھی فری علاج کرانے کی استعداد کی حامل ہے۔جب سے ملک کی باگ ڈور نگران حکومت کے ہاتھ میں آئی ہے اس نے پہلے سے مہنگائی کے ہاتھوں بے حال قوم کے دکھوں پر مرہم رکھنے کے بجائے ان کے زخموں پر مزید نمک پاشی کی ہے۔ بجلی، گیس اور پٹرول کی قیمتوں پر کوئی کنٹرول نہیں، اس پر مزید ستم یہ ہے کہ قیمتیں بڑھا کر ساتھ یہ بھی کہتے ہیں کہ حکومت نے کوشش کی ہے کہ غریب آدمی پر کم سے کم بوجھ پڑے۔ ساتھ یہ بھی ہمیں پتہ چلتا ہے کہ قیمتوں میں اضافے نے ہمارے کرتا دھرتا لوگوں کے دلوں پر بہت بوجھ ڈالا ہے اور شاید رات کو انہیں نیند بھی نہیں آتی۔ کرسی پر بیٹھنے والا ہر حکمران اپنے سے پہلے والوں پر لعن طعن کرکے خود ہر چیز سے بری الذمہ ہوجاتا ہے۔ مارکیٹ میں کسی کو کوئی پوچھنے والا نہیں، ہر چیز کی قیمت ہر کسی نے اپنی مرضی سے طے کر رکھی ہے۔ سرکاری نرخوں کا بورڈ ہر جگہ لگا ہے مگر ان پر ریٹ کہیں نہیں لکھے ہوئے اور جہاں چند دکانوں پر لکھے ہوئے ہیں ان داموں میں جو سبزی اور فروٹ ملتا ہے وہ کسی بھی کام آسکتا ہے کھانے کے نہیں۔
کل ٹی وی دیکھتے ہوئے کچھ لطیفے سننے کو ملے، کوئی حکومتی نمائندہ کہہ رہا تھا کہ ملک میں دودھ کی قیمت 160 روپے فی کلو ہے جب کہ ہم زمانے سے یہاں 220 روپے کلو لے رہے ہیں اور دکان والے سر عام بیچ رہے ہیں۔ اسی طرح ایک اور صاحب فرما رہے تھے کہ ملک میں چینی 98 روپے کلو دستیاب ہے مگر میں نے بڑا تلاش کیا کہ وہ دکان مجھے مل جائے جس کی طرف موصوف اشارہ فرما رہے تھے، حالانکہ ملک میں چینی کی قیمت ڈبل سنچری کراس کرچکی ہے۔ ماش کی دال کے دام 600 روپے کلو تک جا پہنچے ہیں اور حکومتی نمائندوں کا ابھی بھی اصرار ہے کہ گھبرانے کی بات نہیں۔ دراصل وہ ہمیں یہ بتاتے ہیں کہ ان کےلیے گھبرانے کی کوئی بات نہیں ہے۔ان حالات میں عام آدمی جائے تو کہاں جائے اور فریاد کرے تو کس سے کرے؟ جن سے فریاد کرنی ہے ان کےلیے تو سب کچھ مفت دستیاب ہے لہٰذا انہیں آپ کی تکلیف کا احساس کیسے ہوگا۔ عام آدمی کی سکت اب جواب دے چکی ہے اور جب کسی بھی شے کو کارنر کردیا جائے تو اس کے پاس آخری حل اپنی جان بچانے کےلیے سامنے والے پر حملہ کرنے علاوہ کوئی دوسرا نہیں ہوتا۔خدایا عوام کو اس نہج تک نہ لے کر جائیں کہ وہ خود ہی عوام، خود ہی پارٹی اور خود ہی قائد بن جائیں۔ ہوش کے ناخن لیجیے اور آئین پاکستان کے مطابق حقوق دیجیے۔ ان کی دادرسی کیجیے۔ اگر آپ ملک نہیں چلا سکتے تو کرسی سے اتر جائیں مگر مراعات یافتہ طبقات کا دفاع کرکے عام آدمی کے زخموں پر نمک تو نہ چھڑکیں۔(بشکریہ ایکسپریس نیوز)

محمد مشتاق ایم اے

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں