اخلاقیات کا جنازہ، جواب دہ کون؟ حل کیا ہے؟

ملک میں جنسی تشدد اور زیادتی کے بڑھتے واقعات لمحہ فکریہ ہیں -فوٹو: فائل

تحریر:عابدہ فرحین
پاکستان ایک نظریاتی مملکت ہے جس کو اگست2023 ءمیں وجود میں آئے ہوئے 76 سال گزر چکے ہیں۔ اس مملکت کے باسیوں کو اچھی طرح معلوم ہے کہ اس ملک کی بنیادیں مٹی اور پتھر سے نہیں بلکہ ان کے آباء و اجداد کی قربانیوں اور بہت عظیم جذبوں سے سینچی گئی ہیں۔ یہ ملک اس کرۂ ارض پر ایک منفرد حیثیت کا حامل ہے اور یہ جس نظریے پر قائم ہوا، اس نے آج سے چودہ سو سال پہلے اس نوع انسانی کو بلا صنفی امتیاز کے انسانیت کی معراج پر فائز کردیا تھا۔اس مملکت کی تعمیر و تخلیق میں دونوں اصناف نے یکساں طور پر حصہ لیا۔ اس مملکت کو بنانے والوں میں صرف مرد ہی ہیرو نہیں بلکہ خواتین بھی شامل ہیں، جنہوں نے نہ صرف اس وقت بلکہ بعد میں بھی شانہ بشانہ اپنا کردار ادا کیا۔ ’’بی اماں‘‘ کو کون نہیں جانتا؟ محترمہ فاطمہ جناح، بیگم محمد علی، بیگم سر شاہنواز جیسے اور بہت سے نام شامل ہیں۔ محترمہ فاطمہ جناح تو اپنے بھائی کے ساتھ شانہ بشانہ تھیں اور بعد میں بھی ان کے مشن کو لے کر چلتی رہیں۔ قائد اور اقبال کے خواب کو پورا کرنے کی اس جدوجہد سے ہی ہماری تاریخ مزین ہے۔لیکن یہ کیا ہوا کہ آج 76 سال بعد بھی ان کے اس خواب کی تعبیر کو ہم پاکستان کی سرزمین پر ہی سبوتاژ کرتے چلے جارہے ہیں اور اس صورتحال کی گواہی میں نہ صرف زینب کیس، نہ صرف موٹر وے پر خاتون کے ساتھ زیادتی جیسے حادثات بلکہ اس جیسے بہت سے واقعات چیخ رہے ہیں۔یہ بات عقل سے ماورا ہے کہ ایک عظیم نظریے کی بنیاد پر کھڑی ہونے والی قوم کی اگلی نسل نے کیسے اس کی اقدار و روایات، اس کی تہذیب اور اس کی اخلاقیات کا جنازہ نکال دیا۔ حالانکہ یہ ناممکن ہے کہ بیج کسی اور چیز کے ڈالے جائیں اور فصل کسی اور چیز کی نکلے۔ لیکن ہماری روبہ زوال صورتحال نے اس ناممکن کو بھی ممکن کردیا۔ اگر ہم ایک دردمند دل رکھتے ہیں اور اپنی قوم کو وینٹی لیٹر سے واپس لانا چاہتے ہیں تو ہمیں اس کی وجوہ ڈھونڈنی ہوں گی، اس کا حل سوچنا ہوگا اور آگے بڑھ کر اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔
ممکنہ وجوہات:
اگر ہم اس صورتحال کی وجہ جہالت اور ناخواندگی کو گردانتے ہیں تو یقیناً یہ بھی ایک وجہ ہوسکتی ہے۔ قائداعظم نے اپنے ابتدائی فرمان میں کہا تھا:
’’’تعلیم ہر ایک کےلیے لازمی قرار دی جائے گی۔‘‘
لیکن حکومتیں آتی رہیں اور جاتی رہیں، نہ ہی تعلیم ہر ایک کےلیے لازم ہوئی، نہ ہی شرح خواندگی میں تیز رفتاری آئی۔ ورلڈ بینک کے مطابق پاکستان میں شرح خواندگی کا تناسب درج ذیل ہے:


اس وقت ہمارا خواندگی کا تناسب 60 فیصد تک پہنچا ہے اور یہ سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ اس میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو صرف اپنا نام لکھنا جانتے ہیں۔مزید افسوسناک صورت حال یہ ہے کہ سرکاری سطح کے اسکول، کالجز، جامعات اور تعلیمی بورڈ سب کا انفرااسٹرکچر نہ صرف تباہ حال ہے بلکہ سال بہ سال رو بہ زوال ہے (کہیں کم کہیں زیادہ لیکن اس سے انکار ممکن نہیں) تو تعلیم سے پیدا ہونے والے شعور، تہذیب اور اخلاق کا تقاضا کس سے کیا جائے؟
لیکن صرف غیر تعلیم یافتہ ہونے کو بھی مورد الزام نہیں ٹھہرایا جاسکتا، کیونکہ ان واقعات میں نہ صرف تعلیم یافتہ بلکہ اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ بھی ملوث ہیں۔اب میرا سوال ان لوگوں سے ہے جنہوں نے ملک کے طول و عرض میں اپنے سکولوں کی کئی کئی شاخیں کھول رکھی ہیں۔ان کا دعویٰ ہے کہ ان کی تعلیم مہنگی اس لیے ہے کہ وہ بہت معیاری تعلیم دیتے ہیں اور پچھلے تیس سال کے عرصے میں ان اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کی نمایاں تعداد ہے جہاں تعلیم کی اہمیت سمجھنے والے والدین اپنا پیٹ کاٹ کر بھی اپنے بچوں کو وہاں تعلیم کےلیے بھیجتے ہیں۔ اس معاشرے کی کم و بیش دو نسلیں بہت بڑی تعداد میں ان اسکولوں سے نکل چکی ہیں۔تو پھر معاشرے میں بہتری کیوں نہیں؟ زوال کیوں ہے؟ کیا ان اداروں کی انتظامیہ جواب دہ نہیں؟ کیا اس سسٹم کے معیاری ہونے کے دعویداروں کے سامنے بہت سے سوالیہ نشان نہیں؟ایک بہت بڑا پہلو جو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، وہ ہمارے دینی مدارس ہیں۔ مدارس کی تو بہت بڑی چین اس ملک میں پائی جاتی ہے، بلکہ شاید سکولوں سے بھی زیادہ۔ تو کیا مدارس کے منتظمین اور اساتذہ بھی اس معاملے میں جواب دہ نہیں؟ کیا اس ملک وقوم کے معلمین قوم کی اس حالت پر جواب دہ نہیں؟ کہاں گئے وہ اساتذہ جو انبیاء کے جانشین کہلاتے ہیں؟ جو اپنے شاگردوں کےلیے رول ماڈل ہوا کرتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ سب کچھ کمرشلائزیشن اور بزنس اسٹریٹجی کی دھول میں کہیں گم ہوگیا ہے۔
علامہ اقبالؒ اور قائداعظمؒ نے بھی تعلیم کے حصول کو اچھے عمل اور اچھے رویوں سے جوڑا ہے۔ بقول اقبال:
وہ علم نہیں زہر ہے احرار کے حق میں
جس علم کا حاصل ہے جہاں میں دو کف جو
آج ہماری قوم اور ہمارے تعلیم داں اپنے ان بزرگوں کو کیا کوئی جواب دے سکتے ہیں؟ حتیٰ کہ مغرب کے دانشور بھی یہی کہتے ہیں:
’’اقدار کے بغیر تعلیم، خواہ وہ کتنی ہی مفید کیوں نہ ہو، انسان کو مکار شیطان میں بدل دیتی ہے۔‘‘ (سی ایس لیوس، برطانوی مصنف و دانشور)
اگر اس صورتحال میں مفلسی اور غربت کو مورد الزام ٹھہرایا جائے تو یہاں تو اچھے خاصے دولت مند گھرانوں کے افراد بھی ملوث ہیں اور اگر ہم دیگر کی ہسٹری دیکھیں تو شاید ان میں کوئی ایسا نہ ہو جو دو وقت کی بھوک کی وجہ سے مجبور ہو۔
اب ہم ذرا گھروں کے ماحول اور والدین کی بات کرتے ہیں۔ ہمارے والدین شاید کسی درجے میں اپنا کردار بھول چکے ہیں۔ رستم و سہراب اور خلیفہ ہارون رشید جیسے ہیروز کی کہانیوں سے ہماری تاریخ مزین ہے جنہیں ہم بھول چکے ہیں۔
ہماری مائیں حضرت عائشہؓ و حضرت خدیجہؓ جیسی ہستیوں کو، عبدالقادر جیلانیؒ کی والدہ اور بی اماں جیسی ماؤں کو بھول چکی ہیں۔
ہمارے ہاں والدین بچوں کو سکولوں کے حوالے کرکے اور پھر ان سکولوں کی فیسوں سمیت دیگر معاشی بھاگ دوڑ میں مصروف ہوکر وقت ہی نہیں دے پاتے اور اگر دیتے بھی ہیں تو بچوں کی تربیت کی ترجیحات کو بہت کم والدین ہی مدنظر رکھ پاتے ہیں۔
اب ہم ریاست کے چوتھے ستون کے بارے میں بھی بات کرلیتے ہیں۔ دل کو روؤں یا پیٹوں جگر کو میں؟ میڈیا کی طالب علم ہونے کے باوجود مجھے یہ کہنے میں عار نہیں کہ آج کے دور کا اور بالخصوص ہمارے معاشرے کا ایک بہت بڑا المیہ میڈیا بھی ہے۔
یہ ایک بین الاقوامی حقیقت ہے کہ میڈیا ہر معاشرے میں عوامی سطح پر رائے سازی کا کردار ادا کرتا ہے، جہاں بھی کوئی تبدیلی یا انقلاب آیا ہے اس میں ہمیشہ میڈیا کا کردار بنیادی رہا ہے۔
معاشرے کو مثبت سوچ اور فکری رہنمائی دے کر معاشرے کی تربیت کرنے کا کام کم از کم ہمارے میڈیا نے کبھی نہیں کیا۔
ریکارڈ کے مطابق پاکستان میں ٹی وی دیکھنے والوں کی تعداد ساڑھے تیرہ کروڑ سے تجاوز کرچکی ہے۔ ان ناظرین کا 25 فیصد، یعنی ساڑھے سات کروڑ سیٹلائٹ اور کیبل ٹیلی وژن دیکھنے والے ہیں۔ پاکستان میں ٹیلی وژن چلانے کےلیے اب تک لائسنسوں کی تعداد 92 ہے، جن میں 85 چینلز نشریات دکھا رہے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ میڈیا ایک جادوئی اثر رکھنے والی طاقت ہے، جسے فروغ علم، تعلیم و تربیت، معاشرتی ترجیحات اور سماجی اصلاحات کے ذریعے عوام کی زندگیوں میں تبدیلی لانے کےلیے ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جاسکتا ہے۔
مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے میڈیا کے تقریباً سب ہی ادارے پرائیویٹ سکولوں کی طرح کمرشل ماڈل ہیں اور یہ اپنی اسکورنگ، ریٹنگ اور اشتہارات کی بھرمار کےلیے جدوجہد سے اوپر ہی نہ اٹھ سکے۔
اس ساری صورتحال کے بڑھتے جانے میں سوشل میڈیا کے کردار پر بہت بات ہوتی ہے۔ لیکن میرے خیال میں سوشل میڈیا تو دراصل ہمارے سوشل فیبرک کی نمائندگی کرتا ہے۔ یہ ضرور ہے کہ PTA کو اس میڈیم کو تعمیری بنانے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔
سوشل میڈیا تو ہماری قوم کا ایک عکس ہے، اس کے ذریعے بہت سے مثبت کام بھی ہوئے ہیں اور یہی ہے جو قوم کو پاتال میں بھی گرا دیتا ہے۔ اصل کردار تو متذکرہ بالا افراد اور اداروں کا ہے۔ اب تو وہ زمانہ بھی نہیں کہ کوئی یہ کہے
میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں
تمام شہر نے پہنے ہوئے ہیں دستانے
مگر یہاں تو کسی کو ان دستانوں کی بھی ضرورت نہیں۔ اب تو وہ بے حسی اور ڈھٹائی ہے کہ ہاتھ پر لگا خون سرعام ہے۔ اس پر کسی کو پشیمانی بھی نہیں۔
ہمارے معاشرے میں لوگ دھڑلے سے جرائم کا ارتکاب کرتے ہیں اور پھر دندناتے بھی پھرتے ہیں۔ اس کی بہت بڑی وجہ ہمارے عدالتی نظام کی کمزوری، سستے اور جلد انصاف کی عدم فراہمی ہے۔ ہماری عدالتیں، ہمارا انصاف کا نظام بھی ہمارے نظام تعلیم کی طرح ہی طبقاتی ہے، جو امیر کو چھوڑ دیتا ہے اور غریب کی گردن پکڑ لیتا ہے۔
عوام کو میڈیا کے ذریعے جرم کے ارتکاب کا اور اس مظلوم اور ملزم کا تو چیخ چیخ کر بتادیا جاتا ہے لیکن پھر کیا ہوا؟ تو پھر کسی کو ضمانت پر چھوڑ دیا، کسی کےلیے کورٹ کا آرڈر آگیا تو کوئی باہر چلا گیا؛ اور کوئی ابھی تک قید میں ہے۔ بس فیصلوں کا اور سزاؤں کا نہ ختم ہونے والا انتظار۔
تو اب کیا کیا جائے؟
ممکنہ حل
اب جو کچھ ہوچکا وہ ہوچکا، بہت سا پانی پلوں کے نیچے سے گزر گیا۔ اب تو جو کچھ بچ گیا ہے، اس کو محفوظ کرنے اور جو واپس لاسکتے ہیں اس کو واپس لانے پر سوچنا ہوگا۔
کسی ایک طبقے کو یا ایک دوسرے کو اس کا ذمے دار ٹھہرانے کے بجائے ہر فرد کو ذمے داری اٹھانی ہوگی کیونکہ ہر فرد اپنے عمل کا ذمے دار ہے۔
اگر عوام، حکومت، ادارے، سیاسی جماعتیں اور دیگر تنظیمیں سب اپنی ذمے داری سمجھتے ہوئے انفرادی کوشش بھی کریں اور اجتماعی طور پر بھی سر جوڑ کر بیٹھیں تو شاید بہتری کا کوئی امکان پیدا ہوسکے۔ وگرنہ ہماری داستان تک نہ ہوگی داستانوں میں۔
ہم اگر آج کے چیلنج کو قبول کریں تو کم از کم ہمیں درج ذیل کام فوری طور پر کرنے ہوں گے۔
قوانین بنانا اور پہلے سے موجود قوانین پر عملدرآمد کو ممکن بنانا۔
مقدمات کے فیصلے جلد نمٹائے جائیں، یعنی سستے، فوری اور حقیقی انصاف کی فراہمی کو ممکن بنایا جائے۔ بقول حضرت علیؓ ’’کفر کا نظام چل سکتا ہے لیکن ناانصافی کا نظام نہیں چل سکتا‘‘۔ اسے ممکن بنانے کےلیے ضرورت پڑنے پر عدالتی عملے اور اوقات کار، دونوں میں اضافہ کیا جاسکتا ہے۔
پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی اصلاح کےلیے ضرورت پڑنے پر سخت فیصلے کیے جائیں۔ دیگر ممالک کے پولیس نظاموں سے بھی سیکھنے اور سمجھنے کی بھی کوشش کرنی چاہیے۔
تعلیم کو تربیت کے ساتھ عام کرنے کےلیے قلیل المیعاد (Short term) اور طویل المیعاد (Long term) منصوبہ بندی کی جائے۔ مثلاً
شارٹ ٹرم بنیاد پر تعلیی ایمرجنسی نافذ کرکے تعلیم کو ہر ایک کےلیے لازم کیا جائے اور لانگ ٹرم میں اپنے نظام تعلیم پر سنجیدگی سے کام کرکے اپنی اقدار اور روایات کے مطابق ڈھالا جائے۔ اس میں سے تعلیم کے باوجود تربیت نہ ہونے کی کمی کو دور کیا جائے۔
اساتذہ کا انتخاب بہتر کرنے کے ساتھ ساتھ ٹیچر ٹریننگ کو بھی لازم کیا جائے۔
ماہرین تعلیم کے ساتھ مل کر نظام تعلیم میں درآمد شدہ تعلیمی ماڈیولز میں کچھ اضافی کورس شامل کیے جائیں، جن سے ہماری نئی نسل میں اپنی اقدار و روایا ت سے آگاہی اور محبت پیدا ہو، نیز بحثیت ذمے دار شہری مرد یا عورت اس کو معاشرے میں اپنی حیثیت اور اپنے کردار کا علم ہو۔
میڈیا مالکان کو کم از کم بنیادی اخلاقی ضابطوں کا پابند کیا جائے کہ وہ اپنی ذمے داری کو محسوس کرتے ہوئے قومی ترجیحات کے مطابق اپنے پروگرامز کا مواد پیش کریں اور اخلاقی ضابطوں کو سبوتاژ کرنے پر سخت کارروائی کی جائے۔
علما اور مدارس کے مثبت اور موثر کردار کےلیے مدارس کے بورڈ اور علما کی تنظیموں کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے، تاکہ مسجد کا منبر و محراب قوم کی تعمیر و ترقی میں مزید بہتر کردار ادا کرسکے اور علما کا کھویا ہوا مقام بحال ہوسکے۔
آج ضرورت ہے کہ ہمارے صحافی دوبارہ سے اپنے مشن اور اپنی اصل کو مہمیز دیں۔ مشہور امریکی صحافی جوزف پلٹزر صحافتی اقدار کو بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں ’’خوشحالی اور اصلاحات کےلیے ہمیشہ جنگ کیجیے، ناانصافی اور بدعنوانی کو کبھی برداشت مت کیجیے، ہمیشہ تمام فرقوں کے جذبات کا خیال رکھیں۔ کبھی کسی ایک پارٹی کے موقف کی حمایت نہ کیجیے، عوام کا حق غصب کرنے والے اونچے طبقات کی مخالفت کیجیے، غریبوں کے ساتھ ہمدردی کیجیے، ہمیشہ عوامی بہبود کےلیے خود کو وقف کردیجیے۔ غلط پر تنقید کرتے ہوئے کبھی مت ڈریں، چاہے وہ امرا کی طرف سے ہو یا غربا کی طرف سے ہو۔‘‘
بانی پاکستان نے بھی کہا ’’صحافت کو کاروبار نہیں بلکہ قومی خدمت کا موثر وسیلہ سمجھا جائے۔ یہ ایک ایسا ہتھیار ہے جسے عالم انسانیت کی فلاح و بہبود اور معاشرے میں عدل و انصاف کےلیے استعمال ہونا چاہیے۔‘‘
آج اگر ہمارا میڈیا جرأت، بہادری، حق گوئی و سچائی، ایمانداری، غیر جانبداری اور ملکی سلامتی و فلاح کے مطابق ترجیحات کا تعین کرتے ہوئے قوم کی فکری تعمیر بحیثیت فکری معمار (Opinion maker) کام کرنا شروع کردے تو اس قوم کی بیداری کو کوئی نہ روک سکے گا۔
اگر ہم متذکرہ بالا چند پہلوؤں پر بھی توجہ دے لیں تو پاتال سے بلندی تک جانے کے امکان پیدا ہوتے ہیں اور اگر ایک دوسرے کو ذمے دار ٹھہرانے کے بجائے ہر کوئی اپنی ذمے داری سمجھے اور انفرادی اور اجتماعی طور پر اس فرض کو نبھانے کےلیے اٹھ کھڑا ہو تو وہ وقت دور نہیں جب ہم زندہ و بیدار اور ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑے ہوں گے۔ لیکن شرط یہ ہے کہ ارادہ تو کریں اور قدم تو بڑھائیں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں