کرسمس، امن کا تہوار

کرسمس کا تہوار پُرامن رویوں کو فروغ دینے کا تقاضا کرتا ہے-فوٹو: فائل

تحریر:جاوید نذیر
کرسمس دنیا بھر میں امن کا تقاضا کرتا ہے کیونکہ کرسمس امن کا تہوار ہے اور مسیحی سمجھتے ہیں کہ کرسمس اور امن لازم و ملزوم ہیں، جو نہ صرف مسیحیوں کا تہوار ہے بلکہ اسے ایک عالمگیر فیسٹیول کی حیثیت حاصل ہے۔رواں سال دنیا ایک مرتبہ پھر کرسمس کی خوشیوں سے لطف اندوز ہونے جارہی ہے تو ہم سب کو دنیا بھر میں امن کےلیے بھی خصوصی طور پر کوششیں کرنی ہیں۔ ہمیں امن مشن کو آگے بڑھاتے ہوئے جہاں فلسطین اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی کےلیے دعاگو ہونا ہے وہاں ہمیں کشمیر، شام اور لبنان اور یمن میں امن کے قیام کےلیے، یوکرین اور روس کے درمیان جنگ کے خاتمے اور ان کے علاوہ دنیا بھر میں جہاں بھی امن کو تاراج کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اُن کے خاتمے کےلیے دعاگو ہونا ہے۔ہم سب کو اپنی انفرادی اور اجتماعی دعاؤں میں اُن ملکوں، شہروں اور علاقوں میں امن کے قیام کےلیے نہ صرف دعائیں کرنی ہیں بلکہ اپنی حکومتوں اور میڈیا پر زور دیں کہ ان علاقوں میں امن کےلیے آواز بلند کریں۔ یو این کو بار بار اپیل کریں اور اپنا احتجاج ریکارڈ کرائیں اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ امن کے ساتھ ہی ہم کرسمس کے موسم میں داخل ہوں۔ ہم ان جگہوں پر کرسمس کے دنوں میں ہی عارضی جنگ بندی کا مطالبہ نہ کریں بلکہ تصادم میں الجھے اُن ملکوں کے سربراہان پر دباؤ ڈالیں کہ وہ نئے سال میں مکمل جنگ کا اعلان کرتے ہوئے امن کے ساتھ داخل ہوں۔ اس ضمن میں سپر پاورز کو بھی درخواست کریں کہ وہ دنیا بھر میں امن کے داعی بنتے ہوئے پوری دنیا کو پرامن بنائیں۔ اپنے اپنے ملکوں میں اسلحہ بڑھانے اور اس کے ذریعے دنیا فتح کرنے کے رویے کو ختم کریں۔ اپنی مملکتوں کی وسعت کو طول دینے کےلیے کی جانے والی جنگوں کو روکنے کی ضرورت ہے۔کرسمس کا تہوار تقاضا کرتا ہے کہ ہمیں نہ صرف پرامن رویوں کو فروغ دینا ہے بلکہ اپنے ملکوں میں پرامن نصاب کی تدریس کے ذریعے آنے والی نسلوں کو پرامن بنانا ہے۔ ہمیں ان تمام سرگرمیوں کو ترک کرنا چاہیے جو امن کو نقصان پہنچاتی ہیں۔ ہمیں اس حقیقت کو بھی ماننا ہوگا کہ وہ ملک جن میں باقاعدہ فوج نہیں یا کم تعداد میں فوج ہے، وہ ملک اُن ملکوں کی نسبت زیادہ پرامن ہیں جہاں فوج کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ آپ اُن ملکوں میں تعلیم کا معیاردیکھیں، اُن ملکوں کے عوام کی خوشحالی دیکھیں، آپ اُن ممالک کا لائف اسٹائل دیکھیں، آپ ان ملکوں کے عوام کی خوشحالی دیکھیں تو حیران ہوجائیں گے۔ جو ملک جنگ و جدل میں مصروف ہیں اُنہوں نے اپنے عوام کو دکھ، تاسف اور مایوسی کے سوا کچھ نہیں دیا۔دنیا آج بھی جب پہلی اور دوسری عالمی جنگوں کو یاد کرتی ہے تو دہل جاتی ہے اور کوشش کرتی ہے کہ دنیا میں کبھی تیسری عالمی جنگ نہ ہو، کیونکہ جس تعداد میں دنیا کے بہت ملکوں نے ایٹم بم بنا لیے ہیں وہ دنیا کے انسانوں سمیت تمام جانداروں کو صفحہ ہستی سے مٹانے کےلیے کافی ہیں۔ آج جب دنیا میں جنگ وجدل کے ساتھ ساتھ ان ملکوں میں امن کی سرگرمیاں اور کوششیں بھی جارہی ہیں، اُن کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ مسیحیت سمیت تمام دنیا کے مذاہب کا امن کا پیغام فروغ پارہا ہے۔ آج کی دنیا ٹیکنالوجی کی دنیا ہے اور اس ضمن میں جاپان، چین، امریکا، برطانیہ اور یورپی ملکوں نے دنیا کو جدت دی ہے۔ آج کی دنیا سیاحت کی طرف مائل ہے اور خلیجی ملکوں کے ساتھ ساتھ سعودی عرب جیسے ملک نے سیاحت کو فروغ دینے کےلیے حیرت انگیز تبدیلیاں کی ہیں اور خواتین کی آزادی اور جدہ شہر میں فلمی فیسٹیول کے انعقاد نے دنیا بھر کو حیرت زدہ کردیا ہے کہ واقعی سعودی عرب بدل رہا ہے۔میں سمجھتا ہوں کہ اس پُرامن تبدیلی کی ضرورت ہر انسان، ہر علاقے اور ہر ملک کو ہے کیونکہ جب دنیا تخریبی عزائم کو پس پشت ڈال کر امن کی طرف راغب ہوگی تو وہ پھر سیاحت کی بات کرے گی، وہ فیسٹیول کی بات کرے گی، وہ نہ صرف اپنے ملک بلکہ دنیا بھر کے نوجوانوں کےلیے امن کے پروگرام ترتیب دے گی۔ میرے نزدیک یہی کرسمس کا پیغام ہے، کیونکہ کرسمس کو امن کی علامت سمجھا جاتا ہے جس میں صرف خوشیاں ہیں۔ لیکن نہایت دکھ ہوتا ہے کہ جیسے ہی کرسمس کا سیزن ختم ہوتا ہے تو دنیا گویا پھر اپنی روش پر دوبارہ لوٹ آتی ہے اور امن کو تاراج کرنے کا سلسلہ پھر شروع ہوجاتا ہے۔کرسمس کے بارے میں جو پُرامن دن کا تصور ہے ہمیں بطور امن پسند شہری اس بات کا ثبوت دینا ہے کہ ہم نہ صرف اس دن بلکہ آنے والے دنوں کو بھی پُرامن بنائیں گے۔ اپنے پڑوسیوں کے ساتھ تعلقات خوشگوار بنائیں، دوسروں کی بلاتخصیص مدد کریں گے، ایک دوسرے کا احترام کریں اور معاشرے کو امن کا گہوارا بنانے کےلیے ہر ممکن جدوجہد کریں گے۔ ایسا کرنا اس لیے ضروری ہے کہ دنیا میں آج (رواں سال) بھی امن کو ختم کرنے کی سرگرمیاں ہورہی ہیں۔ بدامنی کا دور دورہ ہے، قتل و غارت ہورہی ہے، دہشت گردی کا عفریت کہیں نہ کہیں سر اُٹھا تا رہتا ہے، لالچ اور ہوس نے خاندانوں، محلوں، شہروں اور ملکوں کو تباہ کردیا ہے، انسانی حقوق کی پامالی کے اعداد و شمار میں اضافہ ہورہا ہے۔ خواتین کے ساتھ بدسلوکی، اُن کا اغوا اور خرید و فروخت کا سلسلہ زمانہ جاہلیت سے لے کر تاحال جاری ہے۔ چائلڈ لیبر کے تحت بچوں سے مزدوری کرانا معمول بن چکا ہے اور اس ضمن میں عالمی اور ملکی قوانین کو نظر انداز کیا جارہا ہے۔ جبر ی مشقت کے تحت اکیسویں صدی میں بھی انسانوں کو غلام بنانے کے واقعات بھی منظر عام پر آتے رہتے ہیں۔ایسی صورتحال میں کرسمس کا تہوار پوری دنیا کے انسانوں کو ایک امید دیتا ہے۔ امن کی ترویج پر کام کرنے والوں کو نئے زاویوں سے سوچنے کا موقع ہے کہ آئیں اور کرسمس کی حقیقی خوشی میں شامل ہونے کےلیے اپنے آپ میں تبدیلی لائیں۔ کیونکہ جب آپ خود تبدیل ہوں گے تو اپنے آپ میں تبدیلی بھی محسوس کریں گے، آپ امن کے داعی بن جائیں گے تو تب ہی آپ صحیح معنوں میں دوسروں کو کرسمس کی خوشی سے آگاہ کرسکیں گے۔ دعا ہے کہ آنے والا سال ایک پرامن سال ہو جس میں حقیقی معنوں میں امن اور خوشحالی راج کرے.

جاوید نذیر
(بشکریہ:ایکسپریس نیوز)

100% LikesVS
0% Dislikes

کرسمس، امن کا تہوار” ایک تبصرہ

اپنا تبصرہ بھیجیں