انتخابات 2024ء اور ہماری ذمے داریاں

الیکشن کے حوالے سے بنائے جانے والے قواعد و ضوابط پر عمل درآمد کریں-فوٹو: فائل

تحریر:جاوید نذیر
ہمارے ملک میں نئے سال کا آغاز ملک میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے الیکشن کی گہما گہمی سے ہورہا ہے اور انتخابات میں زیادہ سے زیادہ نشستیں حاصل کرنے کےلیے ہر جماعت ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہے۔ حریف جماعتوں کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ ہو رہی ہے۔ برادریوں، گروپوں اور خاندانوں کو اپنی جماعتوں میں شامل کرنے کےلیے لولی پاپ دیے جارہے ہیں۔ جلسے جلوسوں میں مخالف جماعتوں پر الزام تراشیاں کی جارہی ہیں۔ مطلب یہ کہ وہ سب حربے آزمائے جارہے ہیں جن کے ذریعے الیکشن میں کامیابی حاصل کی جاسکتی ہے۔

ایسی صورتحال بن چکی ہے جس میں جماعتیں اپنی برتری دکھانے کےلیے کسی بھی حد تک جاسکتی ہیں۔ نئے نئے گٹھ جوڑ کیے جارہے ہیں۔ جو ماضی میں حریف تھے، وہ حلیف بنتے جارہے ہیں۔ بالکل اسی طرح نئی نئی رقابتیں بھی پیدا ہو رہی ہیں اور بالکل وہی ماحول بن رہا ہے جو ہمیں ماضی کے انتخابات میں دیکھنے کو ملتا تھا۔ الیکشن پر نظر رکھنے والے ماہرین اندازے لگا رہے ہیں کہ موجودہ صورتحال کو دیکھتے ہوئے لگ رہا ہے کہ شاید کسی جماعت کو اکیلے برتری حاصل نہ ہوسکے، اس لیے آنے والی حکومت مخلوط حکومت بنے گی۔ ہمیشہ کی طرح ایک رائے بنائی جارہی ہے کہ آنے والے الیکشن میں جس پارٹی کو اسٹیبلشمنٹ کی حمایت حاصل ہوگی وہی جماعت الیکشن میں کامیاب ہوگی۔ حالانکہ اسٹیبلشمنٹ اس الزام سے اپنے آپ کو بری الذمہ قرار دیتی ہے لیکن عوام کسی صورت یہ ماننے کو تیار نہیں۔ اسی طرح عوام میں یہ رائے بھی پائی جاتی ہے کہ جس جماعت کو سپر پاور امریکا کی آشیرباد حاصل ہوگی وہی جماعت کامیابی حاصل کرے گی۔

پنجاب کے حوالے سے گرما گرم بحث ہورہی ہے کہ آئندہ انتخابات میں پنجاب میں کون سی جماعت اکثریت حاصل کرے گی؟ عوام یہ بھی جانتے ہیں کہ جس انداز سے مسلم لیگ (ن) کو سامنے لایا گیا ہے اور جس تیزی کے ساتھ میاں نواز شریف کے تمام کیسوں کو اسپیڈی ٹرائل کے ذریعے ختم کرکے اُنہیں باعزت بری کیا گیا، وہ سوچنے پر مجبور ہوگئے ہیں شاید ہوائیں مسلم لیگ (ن) کی جیت کا عندیہ دے رہی ہیں۔ لیکن خود مسلم لیگ (ن) اس کو ماننے سے انکاری ہے اور ایسا لگتا ہے کہ وہ انتخابات کے حوالے سے تذبذب کا شکار ہے، تبھی وہ نہ تو جلسے جلوسوں کے ذریعے اپنی موجودگی کا احساس دلا رہی ہے اور نہ ہی اپنے اوپر ہونے والی تنقید کا جواب دے رہی ہے جو خاص طور پر پاکستان پیپلز پارٹی کی طرف سے کی جارہی ہے۔

البتہ مسلم لیگ (ن) نے صوبہ بلوچستان میں ایک بڑی پارٹی کو مسلم لیگ (ن) میں ضم کرکے پاکستان پیپلز پارٹی سے برا ہ راست ٹکر لی ہے، کیونکہ موجودہ صورتحال سے پہلے ایسالگ رہا تھا کہ پیپلز پارٹی صوبہ بلوچستان میں آسانی سے میدان مار لے گی لیکن اب مسلم لیگ (ن) اُن کی راہ میں حائل ہوگئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین سمیت اُن کے وزراء نے مسلم لیگ (ن) کے خلاف محاذ کھول لیے ہیں اور ملک میں موجودہ مہنگائی کا ذمے دار مسلم لیگ (ن) کو ٹھہرا رہے ہیں، جس کے ساتھ مل کر اُنہوں نے حکومت کے مزے لوٹے اور ان تمام فیصلوں پر سابقہ وزیراعظم میاں شہباز شریف کی ہاں میں ہاں ملاتے رہے ہیں جو اُس وقت وہ ملکی مفاد میں کررہے تھے اور اُنہی فیصلوں کو اب وہ ملکی مفاد کے خلاف سمجھ رہے ہیں۔ خیرہماری سیاست کا یہی وتیرہ ہے جس میں کل کے دشمن آج کے دوست بن جاتے ہیں۔

پاکستان پیپلز پارٹی کی مولانا فضل الرحمان اور اُن کی جماعت سے بھی رنجش نظر آتی ہے کیونکہ مولانا نے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کےلیے پاکستان پیپلز پارٹی کے بجائے مسلم لیگ (ن) کو ترجیح دی ہے۔ بالکل اسی طرح مسلم لیگ (ق) نے مسلم لیگ (ن) کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کا عندیہ دے کر واضح کردیا ہے کہ وہ مسلم لیگ (ن) کے ساتھ ہے۔ الیکشن میں پنجاب کو حاصل کرنا ہر جماعت کا خواب ہے اور اس کےلیے ہر جماعت ہی سر توڑ کوشش کررہی ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی گو کہ خاصی دیر سے کوشش کررہی ہے اور انہوں نے تاجروں، وکلاء اور لاہور کے عوام سے براہ راست بھی ملنے کی کوشش کی ہے اور جلسوں کا آغاز کیا ہے۔ اب دیکھتے ہیں کہ لاہور کے عوام بھٹو کی جماعت کو کتنی پذیرائی دیتے ہیں۔

پاکستان پیپلز پارٹی کےلیے ایک اچھی بات یہ ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو شہید کے کیس کا ٹرائل پھر شروع ہوچکا ہے اور جس انداز میں شدت کے ساتھ اس کیس پر بات چیت ہو رہی ہے یقیناً عوام میں شہید بھٹو اور پاکستان پیپلز پارٹی کےلیے نرم گوشہ ضرور پیدا ہوگا، جس کا الیکشن کے دنوں میں پاکستان پیپلز پارٹی کو فائدہ ہوسکتا ہے۔

پاکستان تحریک انصاف کو الیکشن میں خاصی قانونی پیچیدگیاں درپیش ہیں، جس کی وجہ سے پی ٹی آئی کو الیکشن میں حصہ لینے میں دشواریوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، جس سے الیکشن کا رنگ تھوڑا پھیکا نظر آرہا ہے۔ گو کہ پی ٹی کی بچی کھچی اور نئی قیادت اپنی سی کو شش کررہی ہے کہ وہ الیکشن میں کچھ سیٹیں نکالنے میں کامیاب ہوجائے لیکن معروضی حالات سے لگ رہا ہے اُنہیں اس کےلیے خاصی تگ و دو کرنا پڑے گی۔ ان کےلیے ایک اور الجھن یہ ہے کہ اُن کا سامنا جہاں اُن کی حریف سیاسی جماعتوں سے تو ہوگا وہاں اُن کا مقابلہ اپنی جماعت کے اُن سابقہ ساتھیوں سے بھی ہوگا جو کبھی اُن کے شانہ بشانہ تھے۔

ملک کے الیکشن کے ماحول میں الیکشن کمیشن کا رول بہت اہمیت کا حامل ہے جو یقیناً غیر جانبداری کے ساتھ اپنی ذمے داریاں نبھائے گا، گو کہ ہر الیکشن میں اس کی جانبداری پر سوال اٹھائے جاتے ہیں لیکن امید رکھنی چاہیے کہ یہ ملک کا ایک اہم ادارہ ہے جو ہمیں ملک کا نظم و نسق چلانے کےلیے بہتر امیدوار دیتا ہے۔ اس لیے ہمیں اس ادارے کی کارکردگی پر شک نہیں کرنا چاہیے۔ ایسا کرکے ہم اپنے ہی ملک پر دنیا کو انگلیاں اٹھانے کا موقع دیتے ہیں۔ اس لیے ہمیں اس سوچ کو بدل کر الیکشن کمیشن کے فیصلوں کو من وعن تسلیم کرنے کی ضرورت ہے، کیونکہ پچھلے کچھ عرصے سے ملک عارضی حکومت کے ذریعے ہی چل رہا ہے، گو کہ عارضی حکومت ملک کو ترقی یافتہ بنانے میں کوشاں ہے لیکن یاد رہے کہ ملک میں بڑے اور دیرپا مدت کے فیصلے کرنے کی طاقت صرف منتخب حکومت کو ہی ہوتی ہے۔ اس لیے ہمیں کسی پر انگلی اٹھانے سے پہلے سوچنا ہوگا کہ ہم اپنے اس عمل سے دنیا میں جگ ہنسائی کا سبب تو نہیں بن رہے؟ دوسری طرف ہم الیکشن کمیشن سے بھی یہ امید رکھیں گے کہ وہ اپنے فیصلوں میں مکمل غیرجانبداری کا مظاہرہ کرے گا اور اپنے فیصلوں سے وہ یہ ثابت کرے گا کہ وہ اپنے فیصلوں میں خودمختار ہے۔

ہمیں اس بات کا خاص طور پر دھیان رکھنا ہے کہ کسی بھی ملک کی طرح ہمارے ملک میں بھی جہاں ملک کے اندر ہمارے انتخابات کو مانیٹر کیا جارہا ہوتا ہے، اُسی طرح عالمی سطح پر بھی مختلف ادارے ہمارے ملک کے الیکشن کو مانیٹر کریں گے اور اس کے بعد رپورٹ مرتب کریں گے۔ اس لیے الیکشن کمیشن سمیت ہم سب کی بھی ذمے داری ہے کہ آنے والے انتخابات کو شفاف اور پرامن بنانے کےلیے ہر ممکن کوشش کریں اور الیکشن کے حوالے سے بنائے جانے والے قواعد و ضوابط پر عمل درآمد کریں تاکہ الیکشن کو شفاف اور پرامن بناسکیں۔ اپنے اپنے حلقوں میں سادہ اور غیر تعلیم یافتہ لوگوں کو ووٹ کے اندراج سے آگاہ کریں۔ لوگوں کو ووٹ دینے کی اہمیت سے متعلق بتائیں اور زیادہ سے زیادہ لوگوں کو ووٹ ڈالنے کےلیے آمادہ کریں اور آنے والے الیکشن کو تاریخی الیکشن بنائیں، جس کی مثال برسوں تک دی جاتی رہے۔ ایسا کرنا اداروں کے ساتھ ساتھ ہم سب کی ذمے داری ہے اور معاشرے کے ذمے دار شہری ہوتے ہوئے ہمین یہ عزم کرنا ہوگا کہ ہم یہ ذمے داری ضرور نبھائیں گے۔(بشکریہ:ایکسپریس نیوز)

جاوید نذیر

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں