اپنی شناخت کو ترک کرتی قوم

ہم مغرب کے اتنے دلدادہ ہیں کہ اپنی طرز زندگی ہی بھول گئے ہیں-فوٹو: فائل

تحریر:حمیرا آصف
غالبؔ کا ایک خط جو انھوں نے مرزا تفتہ کے نام لکھا تھا، گزشتہ دنوں میری سوچ کا محور بنا رہا اور اسی سوچ کی بنا پر آج یہ بلاگ لکھنے کی کوشش کررہی ہوں۔ اُس خط میں انھوں نے مرزا تفتہ کو ایک نصیحت کی تھی اور یہ دور ایسا نہیں تھا کہ مسلمان اسے بھلادیں۔ ماضی کا بھیانک باب کہ جب تخت و تاج کو اپنے ہاتھ سے نکلتا دیکھا، مالک سے غلام بنتے دیکھا۔ لیکن ماضی ہوتا ہی غلطیوں کو سدھارنے کےلیے ہے۔

تو بات ہورہی تھی اس خط کی۔ غالب نے لکھا ’’کیوں ترکِ لباس کرتے ہو؟ پہننے کو تمھارے پاس ہے کیا جس کو اتار کر پھینکو گے؟ ترکِ لباس سے قیدِ ہستی مٹ نہ جائے گی؟‘‘

میرے مشاہدے کے مطابق کیا یہ بات آج کے زمانے پر پوری نہیں اتر رہی؟ کیا ہم بھی یہی غلطی نہیں کر رہے؟ کیا ہم بھی اپنی شناخت کھوتے نہیں جارہے؟ ہوسکتا ہے کہ میری بات سے کچھ لوگ متفق نہ ہوں لیکن بات سچی ہے۔

آج جو طرز ہمیشہ سے مغرب کا خاصا ہوتا تھا ہمارا پورا معاشرہ اسی کی تو عکاسی پیش کررہا ہے۔ بڑے بڑے شاپنگ مالز میں چلے جائیں، کیا مغربی طرز پر ان کی تعمیر نہیں ہوئی ہے۔ اور اس تعمیر میں کوئی قباحت بھی نہیں ہے۔ لیکن ہم پاکستانی ہیں، ہم جانتے ہیں کہ ہمارا قومی لباس کیا ہے؟ پھر کیوں آنکھ بند کرکے ہم ملٹی نیشنل کمپنیز کی باتیں مانتے ہیں۔ سیلز گرلز کو کیوں قومی لباس زیب تن کرنے کےلیے نہیں دیتے۔ کیا ہمارا قومی لباس صرف نیشنل ٹی وی کی حد تک رہ گیا ہے۔ کھانے کے نام پر برگرز، پیزا، ریسٹورنٹس کی چینز، آفسز میں ان کی تعمیر کرتے وقت مغرب کی نقل وغیرہ ہماری عادت بنتا جارہا ہے۔

ہر چیز ہم بھلاتے ہی تو جا رہے ہیں۔ بزرگ جو کبھی گھر کےلیے رحمت اور رونق کا باعث ہوتے تھے، آج تیزی سے کھلتے اولڈ ہاؤسز کیا سمجھا رہے ہیں ہمیں؟ قومی زبان بولنا اب شرمندگی کا باعث بن گیا ہے۔ پاکستان میں نصابی سرگرمیوں کے نام پر مختلف مقابلہ جات منعقد کروائے جاتے ہیں۔ نام ان کا ہوتا ہے قومی مقابلہ، لیکن قومی زبان میں نہیں بلکہ انگریزی زبان میں۔ یہ کیسے قومی مقابلے ہیں جس میں کسی بھی قومی چیز کو شامل نہیں کیا جاتا۔ ہم کس طرف جارہے ہیں؟ کیوں آنکھیں چرا رہے ہیں؟ بحیثیت ایک معلمہ چیزوں کو باریکی سے دیکھنا میری عادت ہے، مجھے یہ سب دیکھ کر تشویش کا احساس ہوتا ہے۔

میرا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ مغرب کی طرف نہ جاؤ، بلکہ ہر وہ چیز سیکھو جو تمھیں کامیابی کی منازل طے کروانے میں معاون و مددگار ثابت ہو۔ لیکن اپنی شناخت کو بھی تو زندہ رکھو۔ اقبالؔ کے فلسفہ خودی کو تو زندہ رکھو۔ اپنا کردار ایسا بناؤ کہ مغرب تمہاری تقلید کرے۔ اقبالؔ مسلمانوں کے خیر خواہ تھے اور وہ بھی مسلمانوں کی زندگی میں توازن ہی تو چاہتے تھے۔ انھوں نے کیا خوب کہا تھا:

دیارِ مغرب کے رہنے والو! خدا کی بستی دُکاں نہیں ہے
کَھرا جسے تم سمجھ رہے ہو وہ اب زر کم عیار ہوگا
تمھاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ خودکشی کرے گی
جو شاخِ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہوگا

یہ اشعار انھوں نے جب کہے تھے جب ہم مغرب کی پیروی کرنا گناہ سمجھتے تھے اور اقبالؔ چاہتے تھے کہ مسلمان اپنی زندگی کے معاملات میں توازن قائم کریں۔ آج ہم میں یہ فرق آیا ہے کہ مشرق کو چھوڑ ہم مغرب کے اتنے دلدادہ ہیں کہ اپنی طرز زندگی ہی بھول گئے ہیں۔

ابھی بھی وقت ہے، اگر ہوش کے ناخن نہیں لیے تو ہماری نئی نسل جس کے ہاتھ ملک کا مستقبل ہے وہ اپنی شناخت بالکل ہی بھول جائے گی۔ یہ وہ وقت ہے جب سب کو اپنا اپنا حصہ ایمانداری سے اس نسل کو سنوارنے میں ڈالنا ہے۔ اگر وطن سے محبت ہے تو احساس آپ کے اندر موجود ہوگا، بس اسے جگانے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ نوجوان نسل کو سدھارنے کا جو ذریعہ بھی آج نکلتا ہے اس کی راہ میں روڑے اٹکا دیے جاتے ہیں۔ کہیں بے اختیار کرکے تو کہیں نام نہاد حقوق کی مہم چلا کر۔ خدارا وطن سے محبت کیجیے۔ کیونکہ اسی وقت آپ اس ملک کی بھلائی کےلیے دل و جان سے کوشش کریں گے۔
(بشکریہ:ایکسپریس نیوز)

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں