سندھ کی 52 ہزار ایکڑ اراضی گرین کارپوریٹ انیشیٹو کو دینے کا معاہدہ

حکومت سندھ اور گرین کارپوریٹ انیشی ایٹو لمیٹڈ کے درمیان معاہدہ ہوگیا- فوٹو: این این آئی

کراچی: سندھ کی 52 ہزار ایکڑ اراضی گرین کارپوریٹ انیشیٹو کو دینے کا معاہدہ طے پا گیا۔
نگراں صوبائی وزیر ریونیو یونس ڈھاگا نے وزیراعلیٰ ہائوس میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بتایا کہ سندھ حکومت اور گرین کارپوریٹ انیشیٹو کے درمیان 6 اضلاع میں 52ہزار ایکڑ بنجر زمین پر کاشت کے لیے مفاہمت کی یاداشت پر دستخط کیے گئے ہیں، جس کے تحت ابتدائی طور پر 52713 ا ایکڑ زمین گرین کارپوریٹ اینیشیٹو کو 20 سال کے لیے دی جارہی ہے۔انھوں نے مزید بتایا کہ کارپوریٹ ایگریکلچر فارمنگ کے لیے صوبہ پنجاب میں ایک کامیاب پائلٹ پروجیکٹ کے بعد حکومت سندھ اور گرین کارپوریٹ انیشی ایٹو (پرائیویٹ) لمیٹڈ کے درمیان یہ معاہدہ کیا گیا ہے، اس موقع پر نگراں وزیر قانون عمر سومرو، نگراں وزیر اطلاعات احمد شاہ، میجر جنرل شاہد نذیر بھی ان کے ہمراہ تھے۔انھوں نے میڈیا کو بتایا کہ یہ اسپیشل انویسٹمنٹ فیسیلیٹیشن کونسل (SIFC) کی چھتری تلے ایک اقدام ہے جو کہ بورڈ آف انویسٹمنٹ آرڈیننس 2001ء کے باب IIA کے تحت قائم کیا گیا تھا اور اسے پارلیمنٹ میں 2023ء کے ترمیمی ایکٹ کے ذریعے متعارف کرایا گیا تھا، جس کے تحت صوبوں کے وزرائے اعلی اور چیف سیکرٹریز کو بالترتیب SIFC ایپکس کمیٹی اور ایگزیکٹو کمیٹی کے ممبران کے طور پر شامل کیا گیا ہے۔اس وقت کی منتخب سندھ حکومت سمیت وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے پاکستان کے تمام صوبوں میں کارپوریٹ ایگریکلچر فارمنگ (CAF) کے اقدام کو متعارف کرانے کا فیصلہ کیا،لہٰذا، قومی اور صوبائی سطحوں پر جاری اقدام پر غور کرتے ہوئے، کارپوریٹ ایگریکلچر فارمنگ (CAF) کے لیے اسٹیٹمنٹ آف کنڈیشنز (SoCs) کو نگراں حکومت سندھ نے 01 دسمبر 2023 کو منظور کیا تاکہ اس کے پالیسی فیصلوں کے تسلسل کو یقینی بنایا جا سکے۔ایک پائلٹ پروجیکٹ کے طور پر، متعلقہ ڈپٹی کمشنرز نے اس اقدام کے پائلٹ پراجیکٹ کے لیے تقریباً “52713” ایکڑ بنجر زمین جس میں خیرپور 28 ہزار ایکڑ، تھرپارکر 10 ہزار ایکڑ، دادو 9305 ایکڑ، ٹھٹھہ، ایک ہزار ایکڑ سجاول 3408 اور بدین 1 ہزار ایکڑ شامل ہے۔وزیر ریونیو نے مزید بتایا کہ بنجر زمین کو سروے، حد بندی اور تصدیق کے بعد 20 سال کے لیے حوالے کیا مزید یہ بھی یقینی بنایا جائے گا کہ کسی بھی ایسی زمین پر غور نہیں کیا جائے گا جو کسی دیہات، کچی آبادی، محلہ، عارضی پناہ گاہوں، چرنے کی زمین، موسمی کاشت، رینج، کوئی بستی، سہولت، ممکنہ کان کنی کے علاقوں کی حدود میں واقع ہو۔انہوں نے بتایا کہ پہلے سے ہی کسی بھی عوامی مقصد کے لیے مختص زمین، موٹرویز، سپر ہائی ویز، قومی شاہراہیں، سڑکیں، جیلیں، ریلوے لائنیں، آبپاشی کے راستے، جنگلی حیات کی پناہ گاہیں، قومی پارکس، پہاڑی سلسلے، ورثے کے مقامات، مذہبی مقامات، قبرستان، جنگلات کی زمین بشمول مینگرووز کی رہائش گاہیں اور محفوظ جنگلات آبی گزرگاہیں، اہم حفاظتی تنصیبات، بندرگاہ اور سمندری ساحل بھی اس میں شامل نہیں ہوں گی۔وزیر ریونیو نے کہا کہ کمپنی اپنے خالص منافع کا 20 فیصد مقامی علاقے میں ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ پر خرچ کرے گی۔ زمین بطور ملکیت نہیں دی جائے گی بلکہ صرف کاشت کے مقاصد کے لیے دی جائے گی۔ زمین کی ملکیت سندھ حکومت کے پاس ہوگی۔ منصوبوں سے کوئی مقامی حقوق متاثر نہیں ہوں گے۔ مقامی آبادی کے پانی کے حقوق کو متاثر نہیں کیا جائے گا۔ کمپنیوں کو صرف آبپاشی کے راستوں پر انحصار کرنے کی بجائے متبادل طریقوں سے پانی کے وسائل کا بندوبست کرنا ہوگا۔ اس اقدام میں معدنی صلاحیت والی کوئی زمین شامل نہیں کی جائے گی۔انھوں نے ایک سوال کے جواب میں مزید بتایا کہ کسی بھی مسئلے کی صورت میں حتمی اختیار سندھ حکومت کے پاس ہوگا۔ چیف سیکریٹری سندھ کی سربراہی میں ایک بورڈ آف مینجمنٹ قائم کیا گیا ہے جو زمین کے انتظام اور زمین کے مسائل سے متعلق تمام فیصلے کرے گا۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں