جج کیخلاف نوٹس کے بعد کونسل کی کارروائی خودبخود ختم نہیں ہوتی، فیصلہ

سپریم جوڈیشل کونسل آزاد آئینی ادارہ ہے، جج کے خلاف آئین و قانون کے مطابق کارروائی کونسل کا اختیار ہے-فوٹو: فائل

اسلام آباد: سپریم کورٹ نے عافیہ شہر بانو ضیا کیس اپیلوں کا تفصیلی فیصلہ جاری کردیا جس میں کہا گیا کہ جج کے خلاف نوٹس جاری ہونے کے بعد جوڈیشل کونسل کی کارروائی خودبخود ختم نہیں ہوتی۔ 11صفحات پر مشتمل فیصلہ جسٹس امین الدین خان نے تحریر کیا جبکہ جسٹس جمال خان مندو خیل نے 17 صفحات پر مشتمل اضافی وجوہات بھی تحریر کیں۔سپریم کورٹ کے تحریری فیصلے میں کہا گیا کہ جج کے خلاف کارروائی کا اختیار سپریم کورٹ جوڈیشل کونسل کا ہے، جج کے خلاف نوٹس جاری ہونے کے بعد کونسل کی کارروائی خود بخود ختم نہیں ہوتی۔تفصیلی فیصلے میں کہا گیا کہ دو رکنی بینچ کے سامنے جج کی ریٹائرمنٹ کے بعد کارروائی کا سوال تھا، دو رکنی بینچ کے سامنے کونسل کی شروع کی گئی کارروائی کے جاری رہنے کا سوال نہیں تھا۔فیصلے میں کہا گیا کہ تاہم سپریم کورٹ کے اوریجنل فیصلے کے نتیجے میں جج کی ریٹائرمنٹ کے بعد کارروائی نہ ہو سکنے کا تاثر تھا، اس وجہ سے وفاقی حکومت متاثرہ فریق تھی۔سپریم کورٹ نے اپنے تحریری فیصلے میں کہا کہ سپریم جوڈیشل کونسل آزاد آئینی ادارہ ہے، جج کے خلاف آئین و قانون کے مطابق کارروائی کونسل کا اختیار ہے۔سپریم کورٹ نے فیصلے میں کہا گیا کہ ہمارے سامنے جج کے خلاف کونسل کارروائی کے عہدے سے ہٹنے کے بعد خودبخود ختم ہونے کا تھاعلاوہ ازیں تحریری فیصلے میں جسٹس جمال خان مندوخیل نے کیس میں اٹھائے گئے 4 سوالات کے جواب اپنے نوٹ میں تحریر کئے۔ جسٹس جمال خان مندو خیل نے اضافی نوٹ میں کہا کہ جج کے خلاف شروع ہونے والی کارروائی استعفی یا مدت مکمل ہونے سے ختم نہیں ہوتی، کونسل کی کارروائی زیر التوا ہونے کے دوران عہدہ چھوڑنے یا معیاد مکمل ہونے والے جج کو برطرفی کے نتائج سے نہیں بچایا جا سکتا۔جسٹس جمال خان مندو خیل نے کہا کہ جج کے خلاف زیر التوا کارروائی کے دوران استعفی احتساب سے بچنے کیلئے ہوتا ہے، آئین کے آرٹیکل 209 کے تحت کارروائی سے انحراف عدلیہ ہر عوامی اعتماد میں کمی کا باعث ہوگا۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں