تاحیات نااہلی، آمروں نے صادق اور امین والی شرط اپنے لیے کیوں نہ ڈالی؟ چیف جسٹس

نااہلی تاحیات ہوگی کہاں لکھا ہے؟ اسلام میں توبہ کا راستہ موجود ہے،مجرم سزا کاٹ کر الیکشن لڑنے کیلئے اہل ہوجاتا ہے چیف جسٹس سپریم کورٹ –

نااہلی تاحیات ہوگی یہ کہاں لکھا ہے؟ اسلام میں توبہ کا راستہ موجود ہے، چیف جسٹس
اسلام آباد: سپریم کورٹ میں سیاستدانوں کی تاحیات نااہلی سے متعلق کیس کی براہ راست سماعت ہوئی، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 7 رکنی لارجر بنچ نے کیس کی سماعت کی۔لارجر بنچ میں جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس امین الدین خان شامل ہیں جبکہ جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی بھی بنچ کا حصہ ہیں۔دوران سماعت چیف جسٹس آف پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ آمروں نے صادق اور امین والی شرط اپنے لیے کیوں نہ ڈالی؟۔سماعت کے آغاز پر اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان روسٹرم پر آ گئے۔چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسٰی نے سوال کیا کہ عزیر بھنڈاری کہاں ہیں؟ اس موقع پر عزیر بھنڈاری ایڈووکیٹ بھی روسٹرم پر آ گئے۔چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسٰی نے کہا کہ ہم نے 3 عدالتی معاونین مقرر کیے تھے، ریما عمر نے اپنا تحریری جواب بھیجوایا ہے۔دوران سماعت وکیل خرم رضا نے عدالتی اختیار پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ یہ اپیلیں کس قانون کے تحت چل رہی ہیں؟ کیا آرٹیکل 187 کے تحت اپیلیں ایک ساتھ سماعت کیلئے مقرر کی گئیں؟ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ اپنی درخواست تک محدود رہیں۔خرم رضا نے کہا کہ سپریم کورٹ یہ کیس کس دائرہ اختیار پر سن رہی ہے؟چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ آرٹیکل 62 ون ایف کورٹ آف لاء کی بات کرتا ہے، آرٹیکل 99 ہائی کورٹ کو آرٹیکل 184/3 سپریم کورٹ کو ایک اختیار دیتا ہے، سوال یہ ہے کیا آرٹیکل 62 ون ایف سپریم کورٹ کو کوئی اختیار دیتا ہے؟خرم رضا نے کہا کہ ٹریبونل سے آنے والے فیصلے کے خلاف کیس سپریم کورٹ اپیل کے دائرہ اختیار میں سنتی ہے۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا 62 ون ایف ٹریبونل کو بھی تاحیات نااہلی کا اختیار دیتا ہے یا صرف تاحیات نااہلی کا یہ اختیار سپریم کورٹ کے پاس ہے؟خرم رضا نے کہا کہ آرٹیکل 62 ون ایف کی ڈیکلیریشن دینے کا اختیار الیکشن ٹریبونل کا ہے، آرٹیکل 62 ون ایف میں کورٹ آف لاء درج ہے، سپریم کورٹ نہیں۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ بہتر ہو گا ہمیں الیکشن ٹریبونل کے اختیارات کی طرف نہ لے کر جائیں، آئینی عدالت اور سول کورٹ میں فرق کو نظر انداز نہیں کر سکتے، سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ آئینی عدالتیں ہیں جہاں آئینی درخواستیں دائر ہوتی ہیں، الیکشن کمیشن قانون کے تحت اختیارات استعمال کرتا ہے، اگر الیکشن کمیشن تاحیات نااہل کر سکتا ہے تو اختیار سپریم کورٹ کے پاس بھی ہوگا۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سوال کیا کہ ایک بار کوالیفائی نہ کرنے والے کو اگلے انتخابات میں کیسے روکا جا سکتا ہے؟ آرٹیکل 62 ون ایف میں نااہلی کی مدت کہاں ہے؟ آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہلی کی تاحیات مدت سمیع اللہ بلوچ کیس میں دی گئی، انتخابات میں حصہ لینے کے لیے شرائط دی گئی ہیں، اگر امیدوار کی کوالیفکیشن گریجویشن تھی اور وہ الیکشن ایکٹ میں ختم ہو گئی تو تاحیات نااہل کیسے کر دیا؟جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ کاغذات نامزدگی میں غلط بیانی پر کہا جا سکتا ہے کہ آپ امین نہیں، یہ تو نہیں کہا جا سکتا کہ آپ ساری زندگی کے لیے انتخابات نہیں لڑ سکتے۔چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آپ اپنی ہی معروضات کی نفی کرنے والی بات کر رہے ہیں، جب 62 ون ایف کے تحت ٹریبونل نااہل نہیں کرتا تو سپریم کورٹ کیسے کر سکتی ہے؟ کیا سپریم کورٹ الیکشن کے معاملے میں ایپلٹ فورم کے طور پر کام نہیں کرتی؟وکیل خرم رضا نے کہا کہ جن کیسز میں شواہد ریکارڈ ہوئے ہوں وہاں سپریم کورٹ ڈیکلیریشن دے سکتی ہے۔چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے وکیل خرم رضا سے سوال کیا کہ پھر تو آپ سمیع اللہ بلوچ کیس کی حمایت نہیں کر رہے؟وکیل خرم رضا نے جواب دیا کہ میں ایک حد تک ہی سمیع اللہ بلوچ کیس کی حمایت کر رہا ہوں۔اس دوران وکیل خرم رضا نے اسلامی اصولوں کا حوالہ دیا، اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ اسلام کی بات کرتے ہیں تو پھر اس کی سپورٹ میں کوئی دلیل بھی دیں، توبہ اور راہ راست، صراط المستقیم پر واپس آنے کا اصول اسلام میں ہے، شروع میں تو چند ہی لوگ مسلمان تھے، اس طرح تو خلفائے راشدین پھر واپس آہی نہیں سکتے تھے، آمروں نے صادق اور امین والی شرط اپنے لیے کیوں نہیں ڈالی؟اس پر جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ چلیں موضوع بدل دیتے ہیں۔جسٹس منصور علی شاہ نے وکیل خرم رضا کو ہدایت کی کہ آپ آرٹیکل 62 اور 63 کی پہلی سطر پڑھیں، وکیل خرم رضا نے کہا کہ عدالت نے صرف 62 ون ایف کی تشریح کرنی ہے۔چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ عدالت 62 ون ایف کی تشریح ہی تو کر رہی ہے۔جسٹس منصورعلی شاہ نے کہا کہ آپ کہتے ہیں کہ ہم 62 اور 63 کو ملا کر تشریح نہیں کر سکتے۔چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے سوال کیا کہ الیکشن کے لیے تاحیات نااہلی کیسے ہو سکتی ہے؟ اضافی اختیار تاحیات نااہلی والا یہ کہاں لکھا ہے؟
جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کہ کیا آرٹیکل 63 سے ہٹ کر ٹریبونل کسی کو نااہل قرار دے سکتا ہے؟جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ قانون نااہلی کی مدت کا تعین کرتا ہے، 62 ون ایف کے تحت تاحیات نااہلی کو برقرار رکھا گیا، کورٹ آف لاء کو ڈیکلیریشن کا اختیار دیا گیا، جب قانون آ چکا ہے اور نااہلی 5 سال کی ہو چکی تو تاحیات والی بات کیسے قائم رہے گی؟وکیل خرم رضا نے کہا کہ ایک بار نااہل شخص ہمیشہ نااہل رہے گا۔چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے وکیل خرم رضا سے کہا کہ آپ آمروں کی حمایت کر رہے ہیں، آمر نے سیاست دانوں کو نااہل کرنے کا قانون بنوایا، کیا کسی آمر پر نااہلی کا قانون لاگو ہوا؟ منافق کافر سے بھی برا ہوتا ہے، منافق سب جانتے ہوئے غلط کام کر رہا ہوتا ہے، میرے والد ایبڈو قانون کے ذریعے ایوب دور میں نااہل ہوئے، آپ آرٹیکل 225 کی بات کیوں نہیں کرتے؟وکیل خرم رضا نے کہا کہ اٹھارہویں ترمیم میں 62 ون ایف میں شامل شقوں کی توثیق ہوئی۔چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ یہاں تو آئین میں ترمیم بھی گن پوائنٹ پر ہوتی ہے، کیا آپ آرٹیکل 62 ون ایف کو اچھا سمجھتے ہیں؟ اٹھارہویں آئینی ترمیم تو صرف توثیق تھی، منتخب نمائندوں کی بنائی گئی قانون سازی کو حقارت سے نہیں دیکھا جا سکتا، کیا 5 جینٹلمین کی دانش 326 اراکین پارلیمان کی دانش مندانہ قانون سازی ختم کر سکتی ہے؟وکیل خرم رضا نے کہا کہ تاحیات نااہلی ختم کرنے کے لیے آئینی ترمیم کرنا ہو گی۔چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آرٹیکل62 ون ایف کے تحت نااہلی کا تعین آئین کے مطابق نہیں اپنی سوچ کے مطابق کیا گیا، الیکشن 8 فروری کو ہو رہے ہیں تو انتخابات سے متعلق کنفیوژن نہ پھیلائی جائے، مختلف عدالتوں میں مقدمات دائر کرنے سے انتخابات کے راستے میں رکاوٹیں پیدا ہوں گی۔جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ کیا پارلیمنٹ قانون سازی نہیں کر سکتی؟ جس پر وکیل خرم رضا نے کہا کہ پارلیمنٹ قانون سازی کرتی ہے مگر سپریم کورٹ اس کی تشریح کرتی ہے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ پارلیمان نے سزا دینی ہوتی تو آرٹیکل63 کی طرح 62 میں بھی شامل کر دیتی، وکیل خرم رضا نے کہا کہ پارلیمان نے نااہلی کو برقرار رکھا ہے لیکن اس کی مدت کا تعین نہیں کیا۔چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اگر فیصلے میں لکھا جاتا کہ نااہلی کی مدت مقرر نہیں اس لیے نااہلی 2 سال ہو گی تو کیا ہوتا؟ فیصلے کی کوئی نہ کوئی منطق ہونی چاہیے۔وکیل خرم رضا نے کہا کہ دو سال نااہلی کا آئین میں کہیں نہیں لکھا ہوا جس پر چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ایسے تو تاحیات نااہلی کا بھی کہیں نہیں لکھا ہوا۔وکیل خرم رضا نے کہا کہ عدالت 187 کا اختیار استعمال کرے تو الیکشن ایکٹ میں ترمیم کے غیر آئینی ہونے پر دلائل دوں گا۔جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ الیکشن ایکٹ میں ترمیم کسی نے چیلنج نہیں کی۔وکیل خرم رضا نے کہا کہ لاہور ہائی کورٹ میں الیکشن ایکٹ میں ترمیم چیلنج کی گئی ہے۔جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ نااہلی کی مدت کی تشریح پہلے سپریم کورٹ نے کی پھر پارلیمان نے، کیا پارلیمان کی تشریح عدالت سے کم تر ہے؟وکیل خرم رضا نے کہا کہ پارلیمان کا کام قانون سازی اور عدالت کا کام تشریح کرنا ہے۔جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ صادق اور امین کی کیا تعریف ہو گی؟ کوئی قتل کر کے آجائے؟ وکیل عثمان کریم نے کہا کہ غیرمسلم پر بھی صادق اور امین لگایا گیا ہے، یہاں امین کا مطلب اسلام والا نہیں لیا جائے گا۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آئین تو انگلش میں تھا، کیا آئین سازوں کو صادق اور امین کی انگریزی معلوم نہیں تھی؟ جنرل ضیاءیا ان کے وزیر کو امین کا مطلب نہیں معلوم تھا؟جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیئے کہ اس کا مطلب امین کا مطلب اسلامک ہی ہو گا؟ عثمان کریم نے کہا کہ اگر اسلامک مطلب دیکھیں گے تو پھر یہ غیرمسلم پر نہیں لگے گا، اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ غیر مسلم بھی صادق و امین ہو سکتے ہیں۔جسٹس جمال خان مندوخیل نے استفسار کیا کہ کون تعین کرے گا کس کا کردار اچھا کس کا نہیں؟ اس پر عثمان کریم نے کہا کہ حتمی طور پو تعین اللہ ہی کرسکتا ہے۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ تاحیات نااہلی کا فیصلہ تحریر کرنے والے جج نے فیصل واڈا کیس کا فیصلہ بھی دیا، کیا دونوں فیصلوں کو ایک ساتھ دیکھا جا سکتا ہے؟ وکیل خرم رضا سمیت جو تاحیات نااہلی کی حمایت کر رہے ہیں وہ اپنے نکات بتا دیں، 3 وکلاء نے تاحیات نااہلی کی حمایت کی تھی، عثمان کریم صاحب اور اصغر سبزواری صاحب کیا آپ خرم رضا کے دلائل اپنا رہے ہیں؟وکیل اصغر سبزواری نے جواب دیا کہ تاحیات نااہلی اگر ڈکٹیٹر نے شامل کی تو اس کے بعد منتخب حکومتیں بھی آئیں، سمیع اللہ بلوچ کیس میں تاحیات نااہلی “جج میڈ لاء” ہے، جہانگیز ترین جیسے کیسز کی انکوائری ہونا چاہیے جہاں ٹرائل کے بغیر تاحیات نااہل کر دیا گیا۔جسٹس منصورعلی شاہ نے استفسار کیا کہ جب قانون آچکا ہے اور نااہلی 5 سال کی ہو چکی تو تاحیات والی بات کیسے قائم رہے گی؟چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سیاست دان عوام کے منتخب نمائندے ہوتے ہیں، آمروں اور سیاست دانوں کوایک ساتھ نہیں پرکھا جاسکتا، آمر آئین توڑ کر حکومت میں آتا ہے، منتخب ہوکر نہیں آتا، سیاست دانوں کو ایسے برا نہ بولیں وہ عوامی رائے سےمنتخب ہوتے ہیں۔جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ آئین میں آرٹیکل 62 اور 63 الگ الگ لانے کی ضرورت کیا تھی؟ ایک آرٹیکل کہتا ہے کون کون اہل ہے دوسرا کہتا ہے کون نااہل، دونوں باتوں میں فرق کیا ہے؟
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کوئی دوسری شہریت لیتا ہے تو وہ 62 میں نہیں 63 میں پھنسے گا۔
وکیل عثمان کریم نے کہا کہ سپریم کورٹ نے 2013ء کے اللہ دینو بھائیو کیس کے فیصلے میں 62 ون ایف کی نااہلی دی، سپریم کورٹ کے 5 رکنی بنچ نے اللہ دینو بھائیو فیصلے پر انحصار کر کے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت تاحیات نااہلی متعارف کرائی۔انہوں نے مزید کہا کہ سپریم کورٹ کے 3 رکنی بنچ نے 2020ء میں اللہ دینو بھائیو نظر ثانی کیس میں نااہلی کالعدم قرار دے دی، جسٹس بندیال نے 2020ء کے اللہ دینو بھائیو فیصلے پر انحصار کر کے فیصل واوڈا کیس کا فیصلہ دیا۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ یعنی آپ کے مطابق جسٹس بندیال نے اس فیصلے کو بنیاد بنا کر اپنے ہی مؤقف کی نفی کی؟ عثمان کریم نے جواب دیا کہ سپریم کورٹ کا 62 ون ایف کا سمیع اللہ بلوچ کا فیصلہ اس لیے چلے گا کیونکہ 5 رکنی بنچ کا ہے۔چیف جسٹس نے وکیل عثمان کریم کو سراہتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ آپ اچھی تیاری کر کے آئے ہیں اور بھی معاونت کریں، الیکشن سر پر ہیں، ہم نے یہ مسئلہ حل کرنا ہے۔عثمان کریم نے استدعا کی کہ سپریم کورٹ قرار دے چکی ہے کہ ریٹرننگ افسر عدالت نہیں جو ڈیکلیریشن دے سکے، سپریم کورٹ تاحیات نااہلی کے فیصلے کا دوبارہ جائزہ لے، سپریم کورٹ نے نااہلی کی مدت کے تعین کی درست تشریح نہیں کی، سپریم کورٹ اپنی غلطی کی تصحیح کر سکتی ہے۔وقفے کے بعد سماعت کے آغاز پر عزیر بھنڈاری نے کہا کہ پارلیمنٹ اٹھارہویں ترمیم کرنے بیٹھی تو 62 ون ایف کو نہیں چھیڑا تھا، پارلیمنٹ کو علم بھی تھا کہ 62 ون ایف کی ایک تشریح آچکی ہے، سمیع اللہ بلوچ کیس کے کچھ پہلو ضرور دوبارہ جائزے کے متقاضی ہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ آپ اپنا پوائنٹ بتائیں،عزیر بھنڈاری نے کہا کہ سمیع اللہ بلوچ کیس نااہلی کے مکینزم کی بات نہیں کر رہا، 18ویں ترمیم کے بعد بھی کئی آئینی ترامیم ہوئیں، کسی بھی آئینی ترمیم میں آرٹیکل 62ون ایف کی بات نہیں ہوئی۔چیف جسٹس نے کہا کہ ایک فارم میں تبدیلی پر پورا پاکستان بند کر دیا گیا تھا، شاید اس لئے اس معاملے کو چھوڑ دیا گیا ہو، ریاست نے سوچا ہو گا ان لوگوں سے کون ڈیل کرے گا، عزیر بھنڈاری نے کہا کہ یہ غالب جیسی بات ہے کہ یوں ہوتا تو کیا ہوتا، 62 ون‌ایف کے تحت تاحیات نااہلی کی سزائیں دی گئی ہیں۔جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ تاحیات نااہلی کی سزا اٹھارویں ترمیم سے قبل دی گئی یا بعد میں، عزیر بھنڈاری نے کہا کہ 2007ء میں تاحیات نااہلی کی سزا دی گئی، آٹھارویں ترمیم سے قبل سزائیں دی گئیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ آرٹیکل 63 میں سزاؤں کا ذکر کیا گیا ہے لیکن 62 ون ایف میں نہیں، عزیر بھنڈاری نے کہا کہ 62 ون ایف کی سزا کا تعین عدالتوں نے کیا ہے، پارلیمنٹ نے کبھی آرٹیکل 62 اور 63 کی لینگویج تبدیل کرنے کی کبھی کوشش نہیں کی۔چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ایک مرتبہ حلف کی لینگویج تبدیل ہوئی تو پورا ملک بند کر دیا گیا، شاید اس لیے اس معاملے کو چھوڑ دیا گیا ہو، ریاست نے سوچا ہو گا ان لوگوں سے کون ڈیل کرے گا۔عزیر بھنڈاری نے کہا کہ یہ غالب جیسی بات ہے کہ یوں ہوتا تو کیا ہوتا، سمیع اللہ بلوچ کیس فیصلے کو ختم کئے بغیر راستہ نکالا جا سکتا ہے، پرسوں اس عدالت میں کہا گیا 62 ون ایف 63 سے ملا کر پڑھا جائے، یہ نکتہ سمیع اللہ بلوچ کیس میں تفصیل سے اٹینڈ کیا گیا۔چیف جسٹس نے کہا کہ آپ اپنے اصل نکتے پر آجائیں ایسا نہ ہو آج لاہور نہ جا سکیں، عدالتی معاون عزیر بھنڈاری نے کہا کہ میں 20 منٹ میں دلائل مکمل کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔چیف جسٹس نے کہا کہ تاحیات نااہلی کے فیصلے کی بنیاد کسی منطق پر ہی ہونی چاہیے، وکیل عزیر بھنڈاری نے کہا کہ پارلیمنٹ اٹھارویں ترمیم کرنے بیٹھی تو 62 ون ایف کو نہیں چھیڑا تھا، پارلیمنٹ کو علم بھی تھا کہ 62 ون ایف کی ایک تشریح آچکی ہے، سمیع اللہ بلوچ کیس کے کچھ پہلو ضرور دوبارہ جائزے کے متقاضی ہیں۔چیف جسٹس نے عزیر بھنڈاری سے مکالمہ کیا کہ آپ اپنا پوائنٹ بتائیں، وکیل عزیر بھنڈاری نے کہا کہ سمیع اللہ بلوچ کیس نااہلی کے میکنزم کی بات نہیں کر رہا، 18ویں ترمیم کے بعد بھی کئی آئینی ترامیم ہوئیں، کسی بھی آئینی ترمیم میں آرٹیکل 62 ون ایف کی بات نہیں ہوئی۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں